سر پر مرے جو آج محبّت کا تاج ہے
کہتے ہیں یہ مرض تو مرا لا علاج ہے
ناراض ہو وہ خوش بھی ہو چھوٹی سی بات پر
کچھ مجھ سے ملتا جلتا خدا کا مزاج ہے
قائل ہیں لوگ چھوڑنے کے بد رسوم کو
کہتے ہیں خاندان میں رائج رواج ہے
جھکنا پڑے نہ ہر جگہ گر اتنا جان لے
بندے کو اک خدا ہی کی بس احتیاج ہے
نفرت کو چھوڑ دے جو تعصّب سے ہو کے دور
سر پر اسی کے آج محبّت کا تاج ہے
نفرت نہ ہو کسی سے محبّت سے سب رہیں
اس پر عمل کرے جو بھلا کون آج ہے
اپنے وطن میں کالے کا جینا ہوا محال
گورے ہیں اب جہاں وہاں کالوں کا راج ہے
جس کو بھی آسرا ملا باہر کی اور کا
اس آسرے پہ چھوڑ چکا کام کاج ہے
طارق امید پر خدا کی گھر ہے چل رہا
بندے کی کچھ نہ کچھ تو خدا رکھتا لاج ہے

0
20