ہمارا خواب سے رِشتہ بہت پرانا ہے
ہمارے در پہ اُمَنگوں کا آستانہ ہے
نظر سے دُور کہِیں برق گِرتی جاتی ہے
نہیں خبَر کہ قفَس ہے یا آشیانہ ہے
اُفق کے پار سے آیا ہے کوئی سندیسہ
فقَط یہ یاد دِہانی ، کہ لوٹ آنا ہے
ہمارے ہِجر میں آنسو بہا رہا ہے کوئی
خبَر کرو کہ ہمارا یہی ٹھکانہ ہے
مِری نوا کو نشَر کر رہی ہے بادِ صبا
یہ مہربان بہاروں کا شاخسانہ ہے
وہاں وہاں تِری خوشبو بِکھر گئی ہو گی
جہاں جہاں مِرا بِکھرا ہوا فسانہ ہے
مَیں لوٹ آیا تو پہچان لیجیے گا مُجھے
کہ مُسکرانے کا انداز تو پرانا ہے
سفَر نصیب ہوں حمّاد ، والسّلام ، دُعا
ہمارے ساتھ سفَر میں گیا زمانہ ہے
۔۔۔
حماد یونس

0
1
119
حماد صاحب خوشی ہوئ آپ کی غزل پڑھ کے -
اس محفل میں کوئ تو ملا جو جانتا ہے غزل کسے کہتے ہیں
جیتے رہیئے