ہمارا خواب سے رِشتہ بہت پرانا ہے |
ہمارے در پہ اُمَنگوں کا آستانہ ہے |
نظر سے دُور کہِیں برق گِرتی جاتی ہے |
نہیں خبَر کہ قفَس ہے یا آشیانہ ہے |
اُفق کے پار سے آیا ہے کوئی سندیسہ |
فقَط یہ یاد دِہانی ، کہ لوٹ آنا ہے |
ہمارے ہِجر میں آنسو بہا رہا ہے کوئی |
خبَر کرو کہ ہمارا یہی ٹھکانہ ہے |
مِری نوا کو نشَر کر رہی ہے بادِ صبا |
یہ مہربان بہاروں کا شاخسانہ ہے |
وہاں وہاں تِری خوشبو بِکھر گئی ہو گی |
جہاں جہاں مِرا بِکھرا ہوا فسانہ ہے |
مَیں لوٹ آیا تو پہچان لیجیے گا مُجھے |
کہ مُسکرانے کا انداز تو پرانا ہے |
سفَر نصیب ہوں حمّاد ، والسّلام ، دُعا |
ہمارے ساتھ سفَر میں گیا زمانہ ہے |
۔۔۔ |
حماد یونس |
معلومات