ریت کی دیوار تھا مَیں گِر گیا تو کیا ہؤا
بے وفا کی دوستی میں باوفا رُسوا ہؤا
چھوڑ کر رستے میں مجھ کو ناخُدا کہنے لگا
ڈھونڈھ لینا راہ میں تِنکا کوئی بہتا ہؤا
وہ لڑکپن کی بہاریں مستیاں شور و شغب
کس طرح بھولے گا دل سے دَور وہ گزرا ہؤا
دیکھ کر قبروں کے کتبے کانپ اُٹھے جسم و جاں
یاد ہے مجھ کو یہاں اک شہر تھا بستا ہؤا
کب ڈھلے گی شامِ غم چمکے گا کب مہرِ منیر
پوچھتا ہے ہر نفس افلاس کا مارا ہؤا
رو رہے ہو کس لئے اک دن تو جانا ہے مجھے
کیا کرے گا جی کے اک تقدیر کا مارا ہؤا
ریزہ ریزہ کر دیا جس نے مرے خوابوں کا گھر
پھر رہا ہے آج خود بھی ٹھوکریں کھاتا ہؤا
شر میں بھی اک خیر کا پہلو رہا غالب امید
دوستوں کی دوستی کا ڈھونگ تو افشا ہؤا

2
230
https://www.aruuz.com/poetry?id=oOYnkCg1Mn5vM6ZtG7Jw
میری بھی سر اصلاح فرمائیں ۔۔

0
بھائی مَیں خود طِفلِ مکتب ہوں اور ابھی سیکھ رہا ہوں آپ اساتذہ سے رجوع فرمائیں

0