ریت کی دیوار تھا مَیں گِر گیا تو کیا ہؤا |
بے وفا کی دوستی میں باوفا رُسوا ہؤا |
چھوڑ کر رستے میں مجھ کو ناخُدا کہنے لگا |
ڈھونڈھ لینا راہ میں تِنکا کوئی بہتا ہؤا |
وہ لڑکپن کی بہاریں مستیاں شور و شغب |
کس طرح بھولے گا دل سے دَور وہ گزرا ہؤا |
دیکھ کر قبروں کے کتبے کانپ اُٹھے جسم و جاں |
یاد ہے مجھ کو یہاں اک شہر تھا بستا ہؤا |
کب ڈھلے گی شامِ غم چمکے گا کب مہرِ منیر |
پوچھتا ہے ہر نفس افلاس کا مارا ہؤا |
رو رہے ہو کس لئے اک دن تو جانا ہے مجھے |
کیا کرے گا جی کے اک تقدیر کا مارا ہؤا |
ریزہ ریزہ کر دیا جس نے مرے خوابوں کا گھر |
پھر رہا ہے آج خود بھی ٹھوکریں کھاتا ہؤا |
شر میں بھی اک خیر کا پہلو رہا غالب امید |
دوستوں کی دوستی کا ڈھونگ تو افشا ہؤا |
معلومات