سر چڑھ کے بولتا ہے یہ جادو نہیں رکے
روکو گے بھی تو عشق کی خوشبو نہیں رکے
مرشد سے پیار کی صدا ہر جا سنائی دی
سیّد کے پاؤں میں پڑے گھگرُو نہیں رکے
اک عمر سے ہے دل مرا ان کی گلی گیا
برسوں ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو نہیں رکے
دردِ فراق ہو یا ہوں غم اقتصاد کے
اڑ جائے نیند سیج پہ پہلو نہیں رکے
رات اور دن کا دائرہ ہانکے چلے ہمیں
رک جائے خوں رگوں میں، یہ کولہو نہیں رکے
جیسا بھی ہے قلم اسے راشد نہ چھوڑنا
جب تک ہے سانس، خدمتِ اردُو نہیں رکے

0
147