تم سے نہ ہی ملتے تو اچھا تھا |
ایسے نہ بکھرتے تو اچھا تھا |
بے بس بہت ہیں پیشِ جدائی |
کچھ فاصلے رکھتے تو اچھا تھا |
نا پائے رفتن، نا جائے ماندن |
ہم عشق نا کرتے تو اچھا تھا |
ہم پُر تکلف تھے ابتدا میں |
ہم ویسے ہی رہتے تو اچھا تھا |
بے خانماں ہے کیوں یہ سفینہ |
ہم بادباں کَستے تو اچھا تھا |
کیونکر رواں سیلِ چشم ہے اب |
کاندھے سے نا لگتے تو اچھا تھا |
یہ چاپ اُنکی دستک ہے اُنکی |
اب مِؔہر "ناں" کہتے تو اچھا تھا |
---------٭٭٭---------- |
معلومات