توڑ ڈالی تھی غلامیت کی زنجیریں تمام |
ان کے ذوقِ حریت کو ان کی جرأت کو سلام |
مدنیؒ و محمودؒ و سندھیؒ،ضامؒن و قاسمؒ، رشیدؒ |
جنگِ آزادی کے قائد ملک و ملت کے امام |
ہیں سعیدؒ و احمؒد و امداؒد و جوؒہر ،فضلِ حقؒ |
شہ ولیؒ اللّٰه، کفایؒت، شاہ اسمؒاعل، کلاؒم |
نعرۂ تکبیر سے ملت کو شہ عبدالعزیزؒ |
ایک الله کی حکومت کا دیا سب کو پیام |
جب ہوا بیدار ان میں جذبۂ حب الوطن |
کر دیۓ پھر سرفروشوں نے ملوکیت تمام |
مغربیت خاکِ ناکامی ہی ملتی رہ گئی |
ذوقِ حریت نے جب ٹکڑے کیا طوقِ غلام |
سوزشِ قلب و جگر نے پھونک دی مثلِ غبار |
اہلِ یورپ کی سیاسیات کے سارے نظام |
ہے یہ پیغامِ وفا ملت کے شاہینوں کے نام |
ان کے ذوقِ حریت کو یہ جواں بخشے دوام |
ملک و ملت کی حفاظت کے لئے اے پاسباں |
ہندؔ میں کیا دہرؔ میں ہو پھر سیاست کا قیام |
سیکھ ان سے تو بھی پیارے ملک و ملت سے وفا |
راہرو ماضی ہیں صف میں اور سیفِ بے نیام |
اب نکل کر فرقہ و مسلک کی بے جا ریت سے |
پھر سے کر پیدا زمانے کی نگاہوں میں مقام |
دہر میں آئینِ احمدﷺ کا نہ ہو جب تک نفاذ |
اے مسلماں تجھ پہ ہے اک پل کی راحت بھی حرام |
. |
عزم سے خالی جگر ہے کھوکھلی تکبیر ہے |
آج تاریخِ امم بس زینتِ تقریر ہے |
حاملِ قرآں بھلا کیوں کر حکومت ساز ہو |
دانش و بینا کی کتنی دل نشیں تحریر ہے |
کیوں سیاسیات میں الجھے کوئی ہندی نژاد |
زنگ خوردہ مؤمن میداں کی یاں شمشیر ہے |
میں ہوں ایسی قوم سے کہ جس کی آنکھوں میں ابھی |
نا سہانے خواب ہیں نہ شرمندۂ تعبیر ہے |
ہیں پرستارِ سلاطیں جو مسلماں دہر میں |
بس یہی اس قوم کی رسوائیِ تقدیر ہے |
کیوں ترے افکار پر مومن عمل پیرا نہیں |
کھو گئی ہے پند گوئی کی تری تاثیر ہے |
ہند کے غافل اماموں کو پتہ کیسے یہ ہو |
مقصدِ بزمِ مسلماں عالمی تسخیر ہے |
گر خلافت نصِ قرآنی سے ہے ثابت تو پھر |
یہ سیاسیات بھی آیات کی تفسیر ہیں |
کہہ رہی ہے آیتِ قرآن کب سے چیخ کر |
اے مسلماں عالمِ امکاں تری جاگیر ہے |
ہے یہی بہرِ مسلماں کے لئے راہِ نجات |
اقتدار و زور و قوت آخری تدبیر ہے |
ہاں! سیاست بزمِ مسلم کی بقا کا راز ہے |
قوتِ دینِ مبیں ہے باعثِ توقیر ہے |
اف ،مگر محبوب ، ملت ، قوم پیاری ، ہے کسے |
ہر جواں گیسوۓ جانِ جاں کا جو دلگیر ہے |
. |
دیکھ ناداں اندلسؔ، بغدادؔ کا انجام دیکھ |
دے رہا ہے ہندؔ بھی تجھ کو وہی پیغام دیکھ |
آگہی تاریخ سے کچھ بھی نہیں واللہ تجھے |
ہے سرِ فہرست تیرا اے مسلماں نام دیکھ |
رفتہ رفتہ کیسے تجھ سے چھنتے جاتے ہیں وطن |
کل سریا آج برما اب کی یہ آسام دیکھ |
وہ جو کرتے تھے کبھی سو جان ملت پر فدا |
خالدِ جانباز کی اب نازکی اندام دیکھ |
بزمِ عالم سے مسلماں کس طرح ناپید ہو |
قوم کے اے نو جوانو ! فتنۂ اقوام دیکھ |
ہو رہا ہے سرخ استقبال کا روشن جبیں |
رفتہ رفتہ رنگ بدلتے گردشِ ایام دیکھ |
صبحِ مومن سارے نظارے لیے گم ہو گئی |
عالمِ اسلام کی ڈھلتی ہوئی اب شام دیکھ |
جرمِ بادہ خواری کی کیا یہ سزا ہے ساقیا |
اپنے رندوں کی ذرا تو حسرتِ ناکام دیکھ |
خانماں آباد مے خانے کو یہ کرکے تباہ |
بادہ نوشوں کے لہو کا بہتا دریا عام دیکھ |
مٹ رہی ہے بزمِ احمدؐ کیوں خدائے بحر و بر |
ہنس رہے ہیں کیوں صنم خانے میں یہ اصنام دیکھ |
کس بھیانک موڑ پر ہے ہندؔ کی شاہی نسل |
آٹھ سو سالہ حکومت کا ذرا اتمام دیکھ |
دے دلِ مومن میں پھر وہ جذبۂ سیلِ رواں |
ہیں مسلط تیرے بندوں پر یہ ہندی فام دیکھ |
. |
پھر دلِ بیدار سینے میں کہیں آباد کر |
دے نگاہِ دور بیں دے ، عشق سے دل شاد کر |
عظمتِ رفتہ سنا دے، دے انہیں دیرینہ خو |
دے عقابی روح ان کو ہمسرِ صیاد کر |
ہے مسلماں کا مگر اب کند تیغِ بے نیام |
دستِ نازک نازنیں کو بازوۓ فولاد کر |
قیصر و کسریٰ کی شوکت کو زوال آجائے گا |
خالدؓ و فاروقؓ سا دل سینے میں آباد کر |
عصرِ حاضر کے تقاضوں کو سمجھ اے پاسباں |
پھر جوانانِ مسلماں کو صفت اجداد کر |
طفلِ شاھیں کو سکھا دے پھر سے شاہیں کا سبق |
خوف و دہشت کی فضا سے گلستاں آزاد کر |
شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے جلا کر اے کہ تو |
خود میں پیدا بو عبیدؓہ، سعدؓ اور ،مقداؓد کر |
آج بھی باطل ہراساں ہوں گے تیرے نام سے |
پھر سے صحرائے عرب کی داستاں کو یاد کر |
ہے اگر خواہش حیاتِ جاودانی کی تجھے |
ملتِ مرحوم کی الفت سے دل آباد کر |
حرف ، ناموسِ رسالت پر مگر کیوں آۓ گا |
کائناتِ صد ہزار آباد کو برباد کر |
دین و ملت کا تحفظ مقصدِ ہستی ہے گر |
آ کے دربارِ خدا میں گریہ و فریاد کر |
بن حکومت ساز بن تو دستِ دولت آفریں |
محفلِ ہستی سے اب تو ختم استبداد کر |
. |
آسماں خاموش ہے خاموش ہے ارضِ حرم |
ہے مسلمانوں کی دنیا آج محرومِ کرم |
جو جفاکش تھے جہاں سے وہ تو رخصت ہو گئے |
عیش و آسائش کے خوگر ، رہ گئے اہلِ نعم |
بت پرستوں کے مظالم سے مجھے کیا ہو گلہ |
حق پرستوں کی خموشی ہے یہ بالاۓ ستم |
چھوڑ دی جب سے مسلماں نے روایاتِ خلیلؔؑ |
ہو گیے بے خوف ان سے بت گر و اہلِ صنم |
برہمن زادوں کی یہ ہے کوششِ پیہم کہ وہ |
ہند کے بت خانوں کو اک دن بنا ڈالیں حرم |
کس قدر کوشاں ہیں مذہب کے لئے ہندی نژاد |
لے گئے ہیں مسلموں سے چھین کر کہنہ شیم |
فرقہ بندی ، رنگ و نسل و ذات میں الجھے ہوئے |
یہ مسلماں کیوں رکھیں گے اپنے مذہب کا بھرم |
سلطنت بھی چھن گئی ہے چھن رہا ہے دین بھی |
دین و دنیا سے ہوئے جو اس قدر بیگانے ہم |
ابنِ قاسؔم کی توقع عالمِ اسلام سے |
کررہی ہے پھر سے مضطر آج میری چشمِ نم |
آہ ! لیکن کون قلبِ مضطرب کو دے سکوں |
عزم کی تلوار سے کر ریزہ ریزہ کوہِ غم |
کوئی رہبر راہ دکھلانے نہیں پھر آۓ گا |
راہرو خود ہی اٹھا تو جانبِ منزل قدم |
تیری دیرینہ روش کا ہے جہاں کو انتظار |
منتظر ہے پھر تری یلغار کا شاہؔی ! عجم |
معلومات