توڑ ڈالی تھی غلامیت کی زنجیریں تمام
ان کے ذوقِ حریت کو ان کی جرأت کو سلام
مدنیؒ و محمودؒ و سندھیؒ،ضامؒن و قاسمؒ، رشیدؒ
جنگِ آزادی کے قائد ملک و ملت کے امام
ہیں سعیدؒ و احمؒد و امداؒد و جوؒہر ،فضلِ حقؒ
شہ ولیؒ اللّٰه، کفایؒت، شاہ اسمؒاعل، کلاؒم
نعرۂ تکبیر سے ملت کو شہ عبدالعزیزؒ
ایک الله کی حکومت کا دیا سب کو پیام
جب ہوا بیدار ان میں جذبۂ حب الوطن
کر دیۓ پھر سرفروشوں نے ملوکیت تمام
مغربیت خاکِ ناکامی ہی ملتی رہ گئی
ذوقِ حریت نے جب ٹکڑے کیا طوقِ غلام
سوزشِ قلب و جگر نے پھونک دی مثلِ غبار
اہلِ یورپ کی سیاسیات کے سارے نظام
ہے یہ پیغامِ وفا ملت کے شاہینوں کے نام
ان کے ذوقِ حریت کو یہ جواں بخشے دوام
ملک و ملت کی حفاظت کے لئے اے پاسباں
ہندؔ میں کیا دہرؔ میں ہو پھر سیاست کا قیام
سیکھ ان سے تو بھی پیارے ملک و ملت سے وفا
راہرو ماضی ہیں صف میں اور سیفِ بے نیام
اب نکل کر فرقہ و مسلک کی بے جا ریت سے
پھر سے کر پیدا زمانے کی نگاہوں میں مقام
دہر میں آئینِ احمدﷺ کا نہ ہو جب تک نفاذ
اے مسلماں تجھ پہ ہے اک پل کی راحت بھی حرام
.
عزم سے خالی جگر ہے کھوکھلی تکبیر ہے
آج تاریخِ امم بس زینتِ تقریر ہے
حاملِ قرآں بھلا کیوں کر حکومت ساز ہو
دانش و بینا کی کتنی دل نشیں تحریر ہے
کیوں سیاسیات میں الجھے کوئی ہندی نژاد
زنگ خوردہ مؤمن میداں کی یاں شمشیر ہے
میں ہوں ایسی قوم سے کہ جس کی آنکھوں میں ابھی
نا سہانے خواب ہیں نہ شرمندۂ تعبیر ہے
ہیں پرستارِ سلاطیں جو مسلماں دہر میں
بس یہی اس قوم کی رسوائیِ تقدیر ہے
کیوں ترے افکار پر مومن عمل پیرا نہیں
کھو گئی ہے پند گوئی کی تری تاثیر ہے
ہند کے غافل اماموں کو پتہ کیسے یہ ہو
مقصدِ بزمِ مسلماں عالمی تسخیر ہے
گر خلافت نصِ قرآنی سے ہے ثابت تو پھر
یہ سیاسیات بھی آیات کی تفسیر ہیں
کہہ رہی ہے آیتِ قرآن کب سے چیخ کر
اے مسلماں عالمِ امکاں تری جاگیر ہے
ہے یہی بہرِ مسلماں کے لئے راہِ نجات
اقتدار و زور و قوت آخری تدبیر ہے
ہاں! سیاست بزمِ مسلم کی بقا کا راز ہے
قوتِ دینِ مبیں ہے باعثِ توقیر ہے
اف ،مگر محبوب ، ملت ، قوم پیاری ، ہے کسے
ہر جواں گیسوۓ جانِ جاں کا جو دلگیر ہے
.
دیکھ ناداں اندلسؔ، بغدادؔ کا انجام دیکھ
دے رہا ہے ہندؔ بھی تجھ کو وہی پیغام دیکھ
آگہی تاریخ سے کچھ بھی نہیں واللہ تجھے
ہے سرِ فہرست تیرا اے مسلماں نام دیکھ
رفتہ رفتہ کیسے تجھ سے چھنتے جاتے ہیں وطن
کل سریا آج برما اب کی یہ آسام دیکھ
وہ جو کرتے تھے کبھی سو جان ملت پر فدا
خالدِ جانباز کی اب نازکی اندام دیکھ
بزمِ عالم سے مسلماں کس طرح ناپید ہو
قوم کے اے نو جوانو ! فتنۂ اقوام دیکھ
ہو رہا ہے سرخ استقبال کا روشن جبیں
رفتہ رفتہ رنگ بدلتے گردشِ ایام دیکھ
صبحِ مومن سارے نظارے لیے گم ہو گئی
عالمِ اسلام کی ڈھلتی ہوئی اب شام دیکھ
جرمِ بادہ خواری کی کیا یہ سزا ہے ساقیا
اپنے رندوں کی ذرا تو حسرتِ ناکام دیکھ
خانماں آباد مے خانے کو یہ کرکے تباہ
بادہ نوشوں کے لہو کا بہتا دریا عام دیکھ
مٹ رہی ہے بزمِ احمدؐ کیوں خدائے بحر و بر
ہنس رہے ہیں کیوں صنم خانے میں یہ اصنام دیکھ
کس بھیانک موڑ پر ہے ہندؔ کی شاہی نسل
آٹھ سو سالہ حکومت کا ذرا اتمام دیکھ
دے دلِ مومن میں پھر وہ جذبۂ سیلِ رواں
ہیں مسلط تیرے بندوں پر یہ ہندی فام دیکھ
.
پھر دلِ بیدار سینے میں کہیں آباد کر
دے نگاہِ دور بیں دے ، عشق سے دل شاد کر
عظمتِ رفتہ سنا دے، دے انہیں دیرینہ خو
دے عقابی روح ان کو ہمسرِ صیاد کر
ہے مسلماں کا مگر اب کند تیغِ بے نیام
دستِ نازک نازنیں کو بازوۓ فولاد کر
قیصر و کسریٰ کی شوکت کو زوال آجائے گا
خالدؓ و فاروقؓ سا دل سینے میں آباد کر
عصرِ حاضر کے تقاضوں کو سمجھ اے پاسباں
پھر جوانانِ مسلماں کو صفت اجداد کر
طفلِ شاھیں کو سکھا دے پھر سے شاہیں کا سبق
خوف و دہشت کی فضا سے گلستاں آزاد کر
شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے جلا کر اے کہ تو
خود میں پیدا بو عبیدؓہ، سعدؓ اور ،مقداؓد کر
آج بھی باطل ہراساں ہوں گے تیرے نام سے
پھر سے صحرائے عرب کی داستاں کو یاد کر
ہے اگر خواہش حیاتِ جاودانی کی تجھے
ملتِ مرحوم کی الفت سے دل آباد کر
حرف ، ناموسِ رسالت پر مگر کیوں آۓ گا
کائناتِ صد ہزار آباد کو برباد کر
دین و ملت کا تحفظ مقصدِ ہستی ہے گر
آ کے دربارِ خدا میں گریہ و فریاد کر
بن حکومت ساز بن تو دستِ دولت آفریں
محفلِ ہستی سے اب تو ختم استبداد کر
.
آسماں خاموش ہے خاموش ہے ارضِ حرم
ہے مسلمانوں کی دنیا آج محرومِ کرم
جو جفاکش تھے جہاں سے وہ تو رخصت ہو گئے
عیش و آسائش کے خوگر ، رہ گئے اہلِ نعم
بت پرستوں کے مظالم سے مجھے کیا ہو گلہ
حق پرستوں کی خموشی ہے یہ بالاۓ ستم
چھوڑ دی جب سے مسلماں نے روایاتِ خلیلؔؑ
ہو گیے بے خوف ان سے بت گر و اہلِ صنم
برہمن زادوں کی یہ ہے کوششِ پیہم کہ وہ
ہند کے بت خانوں کو اک دن بنا ڈالیں حرم
کس قدر کوشاں ہیں مذہب کے لئے ہندی نژاد
لے گئے ہیں مسلموں سے چھین کر کہنہ شیم
فرقہ بندی ، رنگ و نسل و ذات میں الجھے ہوئے
یہ مسلماں کیوں رکھیں گے اپنے مذہب کا بھرم
سلطنت بھی چھن گئی ہے چھن رہا ہے دین بھی
دین و دنیا سے ہوئے جو اس قدر بیگانے ہم
ابنِ قاسؔم کی توقع عالمِ اسلام سے
کررہی ہے پھر سے مضطر آج میری چشمِ نم
آہ ! لیکن کون قلبِ مضطرب کو دے سکوں
عزم کی تلوار سے کر ریزہ ریزہ کوہِ غم
کوئی رہبر راہ دکھلانے نہیں پھر آۓ گا
راہرو خود ہی اٹھا تو جانبِ منزل قدم
تیری دیرینہ روش کا ہے جہاں کو انتظار
منتظر ہے پھر تری یلغار کا شاہؔی ! عجم

1
67
. وأعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ " الآیۃ

. نـظـم
. تحریکِ سیاست
.( اشعار ١۳٠ ، مدت ؛ ٣ / ٤ ماہ : شاہؔی تخیُلات)

گر زورِ سیاست سے مومن محروم رہا تو ممکن ہے
ایمان پہ مر تو سکتا ہے ایمان پہ جینا مشکل ہے

" سیاست کیوں ضروری ہے ؟؟؟ دور حاضر کے تناظر میں سیاسی زور و قوت کی اہمیت پر اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اگر آپ کی سیاست مضبوط نہیں ہے تو یاد رکھیں کہ آپ ایمان پر مر تو سکتے ہیں مگر جی نہیں سکتے بلکہ ( خدا نہ کرے) آئندہ دور میں تو ایمان پر مرنا بھی مشکل و ناممکن ہو سکتا ہے "

. سـیاسـؔت
سیاست میری زندگی کا وہ موضوع ہے جس نے تقریباً چھ سال سے مجھے پریشان کئے رکھا ہے مجھے یاد ہے کہ جب میں عربی دوم کا طالب علم تھا اس موقع پر استاذ محترم جناب طارق سعید صاحب سے اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کیا تھا کہ حضرت الاستاذ میں ایک انقلابی سیاسی لیڈر بن کر ملک و ملت کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتا ہوں

مقتضاۓ حال کی رعایت کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے دو باتیں کہی پہلی بات تو یہ کہ آپ سیاسی لیڈر بن کر اسی وقت ابھر سکتے ہیں کہ جب آپ سیاسی طور پر پہلے سے مضبوط ہوں دوسری بات یہ کہ یا آپ بہت زیادہ پیسے والے ہوں ان دونوں کے بغیر اس دور پر آشوب میں بہت مشکل ہے کہ آپ اپنا سیاسی کیریئر بنا پائیں

حضرت محترم کی باتیں یقیناً صد فیصد درست تھیں اور ہیں اور جبکہ میں شمعِ سیاست کا بیتاب پروانہ دونوں سے ہی تہی دامن و تہی دست تھا اور ہوں مگر بفضلہ تعالیٰ اپنے عزم کے چٹان کو کسی طرف لڑھکنے نہیں دیا کہ وہ ہنوز برقرار ہے

آج تقریباً تین چار مہینے کی مسلسل تگ و دو کے بعد میری ٹوٹی پھوٹی" نظم" جو کم و بیش ١۳٠ اشعار پر مشتمل ہے "تحریکِ سیاست" جو میرے بیتاب دل کی آئینہ دار اور نازک جذبات کی پاسدار ہے تقریباً چھ سال بعد میرے دل کے دشتِ جنوں میں ایک لمبی مدت تک حیران و سرگرداں مسلسل صحرا نوردی کے بعد آج منظر عام پر آئی ہے جو کسی کتاب سے ماخوذ نہیں اور ناہی کسی سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے کہ
(؛ میں بندہ سیاسی ہوں سیاست مرا مذہب
مت دیکھو مجھے فرقہ و مسلک کی نظر سے ؛)
بلکہ یہ پوری نظم اس ناقص العلم و العقل نے دور حاضر کے مطالعہ اور مشاہدات سے ماخوذ کی ہے جو یقیناً کسی خردمند دانشور سے پوشیدہ نہیں

( یقیناً نظم کے الفاظ و معانی ترکیب و ترتیب میں خامیاں بھی ہوں گی مگر میں آپ کی محبتوں کا طلبگار ہوں)

مجھے امید کامل ہے کہ یہ میری نظم دور حاضر کی تیرگی میں ڈوبی میرے نوجوان نسلوں کی تاریک راتوں کے لئے کچھ نہ کچھ تنک تابی کا سامان ضرور مہیہ کرے گی اور مجھے اپنے نوجوان معاصرین سے بڑی حد تک یہ بھی امید ہے کہ وہ ملک و قوم کی بقاء اور تحفظ کی خاطر میری اس آواز پر لبیک ضرور کہیں گے

اس میں کوئی شک نہیں ک سیاست اسلام کا وہ زورآور بازو ہے کہ جس کی کمزوری ہمیشہ اسلام کے لئے باعثِ تشویش اور بڑی حد تک زوال کا سبب بھی بنی
تاریخ اسلام اس پر شاہد عدل ہے کہ جب بھی اسلام کو سیاسی فرزندوں کی طرف سے کمزوری پیش آئی اسلام کا جہاں تاب سورج کچھ وقفے کے لئے منظر سے غائب ہو گیا
یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ سیاسی شعور اور سیاسی بیداری ہر زمانے میں ناگزیر رہی ہے اور اس کی ناگزیری اب بھی برقرار ہے اور دور حاضر کی سیاست کسی سے مخفی بھی نہیں مگر آج ضرورت ہے ایسے جانثاروں کی جو اس کی بگڑتی صورتحال کو درست کرے جو زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر اس کو صحیح راہ پر لے آئے اور ملک و قوم کی حفاظت کا سامان مہیا کرے اور اس کے لئے بزعمِ خویش جو افراد سب سے موزوں ہیں وہ اولاً وارثینِ الانبیاء ہیں کہ فاتح دو جہاں صلی اللّٰه علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے " کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء" نیز اس وجہ سے بھی کہ وہ سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللّٰه علیہ وسلم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور ثانیاً اسلامی تعلیم و تربیت آراستہ دانشورانِ ملت ہیں البتہ یہ ضروری نہیں کہ ہر کس و ناکس میدان عمل میں پروانہ وار کود پڑے بلکہ ہر کوئی اپنے طریقہ کار کو عمل میں لائے مگر بنیادی چیز جو بے حد ضروری ہے وہ ماحول سازی اور ذہن سازی ہے کہ اس کے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آسکتا

ہم بزمِ عالم میں کسی کی بے جا تقلید یا کسی پر فقط تنقید کے لئے پیدا نہیں ہوۓ بقول علامہ اقبالؒ ہماری پیدائش کا مقصد تسخیرِ کائنات ہے جس کی تائید علی میاں ندویؒ کے جابجا کئی اقوال سے بھی ہوتی ہے ( نقوشِ اقبال کا مطالعہ کریں ) مزید یہ کہ ہماری ایک الگ ہستی ہے ہم اپنی دنیا کے آپ بادشاہ ہیں،
مومن کی موت اس کے جسم نازک سے روح قوی کے پرواز کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ مومن کی موت اس وقت یقینی ہوتی ہے جب وہ ساز کا دیوانہ سوز سے بیگانہ دنیا و مافیہا سے بے خبر محرومِ یقیں ہوجاتا ہے آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی خودی کو پہچانیں اپنے اندر عزم پیدا کریں اور پھر پروانہ وار جنونیوں کی طرح اس پر گامزن ہو جائیں کیوں کہ اس کے بغیر ہم کچھ نہیں کہ دریا وہی ہے جو تلاطم خیز اور طوفان انگیز ہو ورنہ خاموش ہی رہنا ہے تو ہمیں دریا کے بجائے ساحل و کنارہ بن جانا چاہیے اور کہیں سرِ محفل خاموش تماشائیوں کی طرح تماشہ کا لطف اٹھانا چاہیے

جس دل میں نہ ہو عزم و جنوں وہ دل بھی اے دل کیا دل ہے ؟
جو دریا تلاطـم خیـز نہ ہو بہتر تو اس سے ساحل ہے

. نظم
. "تحریکِ سیاست"

Abu Umama Shah Arariawy شاہؔی تخیـُلات

ملک و ملت کی بقا ممکن نہیں اے نوجواں
جب تلک پیدا نہ ہو تجھ میں اداۓ جانفشاں

جانفشانی سے ہی باغِ دہر میں فصلِ بہار
جانفشانی سے ہی گلشن میں ہے شاہیں شادماں

لذتِ صحرا نوردی قیس سے پوچھے کوئی
پھرتا ہے کیوں مضطرب پروانوں سا بیتاب جاں

محوِ حیرت ہوں کہ آخر تھے ہم ہی میں سے کبھی
کیسے کیسے عزم والے ڈھا گئے جو آسماں

رفعتِ پرواز میں چشمِ براہِ انتظار
ہے ثریا بھی پریشاں مضطرب ہے کہکشاں

قوم ہی محبوب ہو کہ فکر کر یوں قوم کی
جیسے لیلی کے لئے مجنوں نے چھوڑے کارواں

کب سے تیری راہ پر پلکیں بچھائے ہے جبیں
آۓ گا کب کارواں میں ہاۓ ، میرِ کارواں

میں کروں بیدار پھر سے جذبہ و عزم و جنوں
اور تو پیدا کرے خود میں صفاتِ مردماں

اپنے اپنے شوخ دل میں بے خطر پر شوق میں
قوم کی الفت میں پیدا کر جنوںِ عاشقاں

طرزِ ماضی پر ہو تیری راہ پھر سے استوار
ہے اسی طرزِ کہن میں ہاں، حیاتِ جاوداں

تیرے دریائے دلِ بےتاب میں پوشیدہ ہے
اک صفت سیلِ رواں بے ضبط بحرِ بے کراں

تیرے ہی دم سے ہیں عالم تاب یہ شمس و قمر
تیرے ہی دم سے فلک پر ہیں ستارے ضو فشاں


.

قوتِ فکر و عمل سے توڑ دے چنگ و رباب
ہے جوانانِ مسلماں کا یہی دورِ شباب

ملک و ملت کے لئے کچھ کام بھی انجام دے
حیف ایسی زندگی پر جس میں نہ ہو انقلاب

دیکھ اپنی ہستیٔ مانندۂ کوہسار کو
عزمِ شاہیں ہے جگر میں اور نگاہوں میں عقاب

تجھ سے روشن روز و شب ہیں تجھ سے روشن کائنات
تو زمانے کے لئے ہے ماہتاب و آفتاب

روز و شب کیا ہو رہا ہے ان سے بھی رہ باخبر
غفلت و نا آگہی کا اب ہٹا دے یہ حجاب

گر عمل پیرا ہوۓ ملت کے کچھ ہی نو جواں
ظلم کے چھٹنے لگیں گے رفتہ رفتہ یہ سحاب

ملک و ملت کو بچانے راہِ شیخ الہنؒد پہ چل
ریشمی تحریک بھی تجھ کو ہے غافل دستیاب

عالمِ اسلام کا بارِ گراں ہے دوش پر
تیرے فرزندانِ سندھؒی اے امامِ انقلاب

تو ہی ناداں بھول بیٹھا ہے روایاتِ کلیم
طور دکھلانے کو مضطر پھر سے ہے وہ آب و تاب

قوم و ملت کی حیاتِ جاودانی تجھ سے ہے
کردے دل کے آئینے کے سارے جوہر بے نقاب

اٹھ کہ اے ملاح ! تیری کشتیاں غرقاب ہیں
زندگی تیری بھنور میں کھا رہی ہے پیچ و تاب

کہہ رہا ہے مجھ سے میرا جان لیوا اضطراب
آۓ گا پھر سے جہاں میں اب کہ کوئی انقلاب

.


ہے تری آنکھوں سے پنہا کیوں نظامِ کائنات
اے مسلماں تجھ کو حاصل کیوں نہیں چشمِ حیات

جذبۂ سیلِ رواں بھی تجھ میں اب باقی نہیں
ترے بحرِ بے کراں کا خشک ہے نیل و فرات

تو اگر دانا ہے اے دل ! لے سبق ان قوم سے
درسِ عبرت دے رہے ہیں ظلم کے جو واقعات

کس طرح اغیار کے ہاتھوں ہوۓ ہیں یہ تباہ
رے و نیشاپور و غزنی خوارزم شاہی ہرات

اک ذرا سی چوٹ پر کیوں دل پریشاں حال ہے
کون ہے جس پر نہ آئے دنیا بھر کے مشکلات

دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف ہو گامزن
تری راہوں پر مسافر منتظر ہیں حادثات

سن اے راہی ! کاروانِ عشق کو سنبھالا دے
شاہراہِ موت ہے یہ لرزے نہ پاۓ ثبات

مقصدِ ہستی تری بھی اے کہ عالم گیر ہے
ڈھونڈ غافل خود میں تو بھی حکمرانوں کے صفات

دہر کے بت خانے میں مومن ہوۓ جو سادہ لوح
سازشی ذھینیتوں نے پھر تراشے سومنات

اٹھ یدِ بیضا لیے پھر اے کلیمِ طور تو
سامری جادو گری کے توڑ دے لات و منات

آپ ہی کرنا ہے ملت کا تحفظ بالیقیں
اے جوانو! یاد رکھو اب نہ ہوں گے معجزات

منزلِ ما فات کی ہو جستجو میں سحر و شام
گردشِ ایام سے تو ڈھونڈ لا راہِ نجات

.

چھوڑ دے تنقید ناداں ہو خرد میداں میں آ
گر ہو یوسف ہم نشیں تو حلقۂ زنداں میں آ

ترک کر تقلید کی بے جا روش کو اے جنوں
چھوڑ کر صحرا نوردی محملِ لیلی میں آ

کشمکش ہے زندگی جو ساحل و دریا کی بیچ
چھوڑ دے موجوں کی سنگت پیکرِ طوفاں میں آ

کائناتِ رنگ و بو کی تنگ ، وسعت سے نکل
ہے طلب انسانیت سے چشمۂ حیواں میں آ

بے تجلی طورِ سینا ہو گیا ہے آج پھر
اے کلیمِ طور تو پھر وادیِ سینا میں آ

ہو اگر حقانیت اسلام کی مطلوب پھر
لے کے پیغامِ شریعت وادیِ فاراں میں آ

دین کی ہی سربلندی گر ہے مقصودِ حیات
چھوڑ کر ہند و عرب کو سرحدِ افغاں میں آ

ہے زمیں تجھ کو میسر سلطنت کی بیج بھی
شام و ایراں سے نکل کر ترک کے دہقاں میں آ

کیا نہیں ممکن جہاں میں ہو اگر سچی طلب
کائناتِ ممکنات و عالمِ امکاں میں آ

خاک روبی سے نکل کر تو فلک پیمائی کر
چھوڑ دے بزمِ غلاماں محفلِ شاہاں میں آ

پھر سے دکھلا دے زمانے کو وہی نظارہ تو
برہمن زادوں پہ چڑھ جا طغرل و عثماں میں آ

عالمِ اقوام پر قبضہ اسی سے ہے جواں
بسکہ ہے دورِ سیاست دہر کے ایواں میں آ

.

دیکھ ناداں کیا ہے اب ملک و وطن کی داستاں
ہے مسلماں کے لہو میں غرق سارا گلستاں

فکر کر غافل وطن کی ، قوم کی تعمیر کر
ہے تباہی کے دہانے پر ترا ہندوستاں

دیکھ اپنے روز و شب کو قوم کی بیچارگی کو
سر پہ تیرے آنے والی ہے مصیبت ناگہاں

حال و استقبال کا بھی جائزہ لے بے خبر
ہو رہا ہے رفتہ رفتہ تنگ تجھ پر آسماں

ظلم کے آگے خموشی کی فضا چھائی ہے اب
بے زباں تو بے زباں اہلِ زباں ہیں بے زباں

چیل و کرگس کے شرر سے ہے جو شاہیں بے خبر
ہر نشیمن چاک ہے باقی بچا نہ آشیاں

پاس آۓ کوئی گر میرے تو اس کو دکھلاؤں
اجڑے اجڑے گلستاں بکھرے ہوئے یہ آستاں

حق و باطل کی لڑائی آخرش ہونی ہی ہے
ہے یہی بہتر کہ چوکس ہوجا قبل از امتحاں

کیسے منزل تک پہنچ پاۓ گا اے اختر نشیں
راہِ رو ماضی سے خالی ہے ترا اب کارواں

وہ عمؓر صدیقؓ و عثؓماں حیؓدر و خاؓلد کا نقش
ڈھونڈتی ہے آج دنیا ، ہیں کہاں وہ حکمراں

ناز کرتا تھا جہاں جن کے غبارِ راہ پر
کھا گئی ہے ان کو کیا یہ گردشِ ارض و سماں

ہے یہی تقدیرِ ملت ہوں گے حاوی ، ناتواں
جب تلک بیدار نہ ہوں قوم کے غافل جواں


.

آہ ناداں اپنی تو نادانیوں سے سیکھ لے
ہر طرف پھیلی ہوئی حیرانیوں سے سیکھ لے

پوچھتا ہے کیا کلی سے پھول سے غنچوں سے گل
گلشنِ اسلام کی ویرانیوں سے سیکھ لے

قوم و ملت کے لئے ہوتے ہیں کیسے جانفشاں
برہمن زادوں سے ، ہندوستانیوں سے سیکھ لے

کس قدر ارزاں ہے لیکن دہر میں انساں کا خوں
ندّیوں میں بہہ رہے ارزانیوں سے سیکھ لے

کیسے گلشن میں بہاراں آکے رخصت ہو گئی
دستِ گلچیں ! گل کی دی قربانیوں سے سیکھ لے

جانثاروں کا جگر ہو سرفروشوں کی ادا
ترک کے صحرا میں جا عثمانیوں سے سیکھ لے

دہر میں قائم ہو کیسے پھر نظامِ " لا ا لہ "
یہ روایاتِ کہن افغانیوں سے سیکھ لے

آتشِ نمرود پھر سے ہے دہکنے کے لئے
اے براہیمی ! شرر افشانیوں سے سیکھ لے

ہاں ! بنا دیتی ہے بزدل عقل کو خوۓ غلام
ان اسیروں کی اِنہیں درمانیوں سے سیکھ لے

کیسے ملت کی حفاظت کے لئے کوشاں رہے
یہ پیامِ جانفشاں تورانیوں سے سیکھ لے

کیسے نافذ ہو جہاں میں آئینِ دینِ مبیں
ہند کے آئین داں ! عثمانیوں سے سیکھ لے

کیسے رہتے ہیں جہاں میں با وجاہت باوقار
اے فقیرِ رہ نشیں ! سلطانیوں سے سیکھ لے

.

توڑ ڈالی تھی غلامیت کی زنجیریں تمام
ان کے ذوقِ حریت کو ان کی جرأت کو سلام

مدنیؒ و محمودؒ و سندھیؒ،ضامؒن و قاسمؒ، رشیدؒ
جنگِ آزادی کے قائد ملک و ملت کے امام

ہیں سعیدؒ و احمؒد و امداؒد و جوؒہر ،فضلِ حقؒ
شہ ولیؒ اللّٰه، کفایؒت، شاہ اسمؒاعل، کلاؒم

نعرۂ تکبیر سے ملت کو شہ عبدالعزیزؒ
ایک الله کی حکومت کا دیا سب کو پیام

جب ہوا بیدار ان میں جذبۂ حب الوطن
کر دیۓ پھر سرفروشوں نے ملوکیت تمام

مغربیت خاکِ ناکامی ہی ملتی رہ گئی
ذوقِ حریت نے جب ٹکڑے کیا طوقِ غلام

سوزشِ قلب و جگر نے پھونک دی مثلِ غبار
اہلِ یورپ کی سیاسیات کے سارے نظام

ہے یہ پیغامِ وفا ملت کے شاہینوں کے نام
ان کے ذوقِ حریت کو یہ جواں بخشے دوام

ملک و ملت کی حفاظت کے لئے اے پاسباں
ہندؔ میں کیا دہرؔ میں ہو پھر سیاست کا قیام

سیکھ ان سے تو بھی پیارے ملک و ملت سے وفا
راہرو ماضی ہیں صف میں اور سیفِ بے نیام

اب نکل کر فرقہ و مسلک کی بے جا ریت سے
پھر سے کر پیدا زمانے کی نگاہوں میں مقام

دہر میں آئینِ احمدﷺ کا نہ ہو جب تک نفاذ
اے مسلماں تجھ پہ ہے اک پل کی راحت بھی حرام

.

عزم سے خالی جگر ہے کھوکھلی تکبیر ہے
آج تاریخِ امم بس زینتِ تقریر ہے

حاملِ قرآں بھلا کیوں کر حکومت ساز ہو
دانش و بینا کی کتنی دل نشیں تحریر ہے

کیوں سیاسیات میں الجھے کوئی ہندی نژاد
زنگ خوردہ مؤمن میداں کی یاں شمشیر ہے

میں ہوں ایسی قوم سے کہ جس کی آنکھوں میں ابھی
نا سہانے خواب ہیں نہ شرمندۂ تعبیر ہے

ہیں پرستارِ سلاطیں جو مسلماں دہر میں
بس یہی اس قوم کی رسوائیِ تقدیر ہے

کیوں ترے افکار پر مومن عمل پیرا نہیں
کھو گئی ہے پند گوئی کی تری تاثیر ہے

ہند کے غافل اماموں کو پتہ کیسے یہ ہو
مقصدِ بزمِ مسلماں عالمی تسخیر ہے

گر خلافت نصِ قرآنی سے ہے ثابت تو پھر
یہ سیاسیات بھی آیات کی تفسیر ہیں

کہہ رہی ہے آیتِ قرآن کب سے چیخ کر
اے مسلماں عالمِ امکاں تری جاگیر ہے

ہے یہی بہرِ مسلماں کے لئے راہِ نجات
اقتدار و زور و قوت آخری تدبیر ہے

ہاں! سیاست بزمِ مسلم کی بقا کا راز ہے
قوتِ دینِ مبیں ہے باعثِ توقیر ہے

اف ،مگر محبوب ، ملت ، قوم پیاری ، ہے کسے
ہر جواں گیسوۓ جانِ جاں کا جو دلگیر ہے

.


دیکھ ناداں اندلسؔ، بغدادؔ کا انجام دیکھ
دے رہا ہے ہندؔ بھی تجھ کو وہی پیغام دیکھ

آگہی تاریخ سے کچھ بھی نہیں واللہ تجھے
ہے سرِ فہرست تیرا اے مسلماں نام دیکھ

رفتہ رفتہ کیسے تجھ سے چھنتے جاتے ہیں وطن
کل سریا آج برما اب کی یہ آسام دیکھ

وہ جو کرتے تھے کبھی سو جان ملت پر فدا
خالدِ جانباز کی اب نازکی اندام دیکھ

بزمِ عالم سے مسلماں کس طرح ناپید ہو
قوم کے اے نو جوانو ! فتنۂ اقوام دیکھ

ہو رہا ہے سرخ استقبال کا روشن جبیں
رفتہ رفتہ رنگ بدلتے گردشِ ایام دیکھ

صبحِ مومن سارے نظارے لیے گم ہو گئی
عالمِ اسلام کی ڈھلتی ہوئی اب شام دیکھ

جرمِ بادہ خواری کی کیا یہ سزا ہے ساقیا
اپنے رندوں کی ذرا تو حسرتِ ناکام دیکھ

خانماں آباد مے خانے کو یہ کرکے تباہ
بادہ نوشوں کے لہو کا بہتا دریا عام دیکھ

مٹ رہی ہے بزمِ احمدؐ کیوں خدائے بحر و بر
ہنس رہے ہیں کیوں صنم خانے میں یہ اصنام دیکھ

کس بھیانک موڑ پر ہے ہندؔ کی شاہی نسل
آٹھ سو سالہ حکومت کا ذرا اتمام دیکھ

دے دلِ مومن میں پھر وہ جذبۂ سیلِ رواں
ہیں مسلط تیرے بندوں پر یہ ہندی فام دیکھ

.

پھر دلِ بیدار سینے میں کہیں آباد کر
دے نگاہِ دور بیں دے ، عشق سے دل شاد کر

عظمتِ رفتہ سنا دے، دے انہیں دیرینہ خو
دے عقابی روح ان کو ہمسرِ صیاد کر

ہے مسلماں کا مگر اب کند تیغِ بے نیام
دستِ نازک نازنیں کو بازوۓ فولاد کر

قیصر و کسریٰ کی شوکت کو زوال آجائے گا
خالدؓ و فاروقؓ سا دل سینے میں آباد کر

عصرِ حاضر کے تقاضوں کو سمجھ اے پاسباں
پھر جوانانِ مسلماں کو صفت اجداد کر

طفلِ شاھیں کو سکھا دے پھر سے شاہیں کا سبق
خوف و دہشت کی فضا سے گلستاں آزاد کر

شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے جلا کر اے کہ تو
خود میں پیدا بو عبیدؓہ، سعدؓ اور ،مقداؓد کر

آج بھی باطل ہراساں ہوں گے تیرے نام سے
پھر سے صحرائے عرب کی داستاں کو یاد کر

ہے اگر خواہش حیاتِ جاودانی کی تجھے
ملتِ مرحوم کی الفت سے دل آباد کر

حرف ، ناموسِ رسالت پر مگر کیوں آۓ گا
کائناتِ صد ہزار آباد کو برباد کر

دین و ملت کا تحفظ مقصدِ ہستی ہے گر
آ کے دربارِ خدا میں گریہ و فریاد کر

بن حکومت ساز بن تو دستِ دولت آفریں
محفلِ ہستی سے اب تو ختم استبداد کر

.

آسماں خاموش ہے خاموش ہے ارضِ حرم
ہے مسلمانوں کی دنیا آج محرومِ کرم

جو جفاکش تھے جہاں سے وہ تو رخصت ہو گئے
عیش و آسائش کے خوگر ، رہ گئے اہلِ نعم

بت پرستوں کے مظالم سے مجھے کیا ہو گلہ
حق پرستوں کی خموشی ہے یہ بالاۓ ستم

چھوڑ دی جب سے مسلماں نے روایاتِ خلیلؔؑ
ہو گیے بے خوف ان سے بت گر و اہلِ صنم

برہمن زادوں کی یہ ہے کوششِ پیہم کہ وہ
ہند کے بت خانوں کو اک دن بنا ڈالیں حرم

کس قدر کوشاں ہیں مذہب کے لئے ہندی نژاد
لے گئے ہیں مسلموں سے چھین کر کہنہ شیم

فرقہ بندی ، رنگ و نسل و ذات میں الجھے ہوئے
یہ مسلماں کیوں رکھیں گے اپنے مذہب کا بھرم

سلطنت بھی چھن گئی ہے چھن رہا ہے دین بھی
دین و دنیا سے ہوئے جو اس قدر بیگانے ہم

ابنِ قاسؔم کی توقع عالمِ اسلام سے
کررہی ہے پھر سے مضطر آج میری چشمِ نم

آہ ! لیکن کون قلبِ مضطرب کو دے سکوں
عزم کی تلوار سے کر ریزہ ریزہ کوہِ غم

کوئی رہبر راہ دکھلانے نہیں پھر آۓ گا
راہرو خود ہی اٹھا تو جانبِ منزل قدم

تیری دیرینہ روش کا ہے جہاں کو انتظار
منتظر ہے پھر تری یلغار کا شاہؔی ! عجم

. (شاہؔی تخیلات)
شاہؔی ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی