اے حبیبِ خدا تیری کیا بات ہے
تو ہے رب کی عطا تیری کیا بات ہے
تو ہی قبلہ مرا تو ہی کعبہ مرا
دل تجھی پر فدا تیری کیا بات ہے
زندگی ہو بسر تیرے ہی عشق میں
آۓ یوں ہی قضا تیری کیا بات ہے
آپ جب مسکراۓ تو پھر ہوگئ
اک قیامت بپا تیری کیا بات ہے
ہادیٔ انس و جاں شاہِ کون و مکاں
ہو تمہی رہنما تیری کیا بات ہے
تیری ہی ذات ہے منبعِ علم و فن
تو ہی رمزِ خدا تیری کیا بات ہے
کاش آۓ نظر خواب میں ہی کبھی
نوری مکھڑا ترا تیری کیا بات ہے
سینچا تھا کس طرح دین کا یہ چمن
تیرا خوں بھی بہا تیری کیا بات ہے
وہ حسین و حسن نورِ عینِ علی
فاطمہ کے ابا تیری کیا بات ہے
تیری نسبت نے مجھ کو نوازا بہت
میں ہوں طالب ترا تیری کیا بات ہے

0
2