کرتا ہے آجکل کُوئی سچی وفا کدھر
جانے بھی حالِ غیر یہاں ہم نوا کدھر
معمورَۂ جہاں کے نشاں بھول جانے سے
"یہ بھی خبر نہیں کہ گیا قافلہ کدھر"
شومِیٔ بخت دیکھئے کیا حال کر گئی
پلکیں بچھی ہیں راہوں پہ ہو دلربا کدھر
سمجھائیں کیسے تب دِلِ بسمل کو ہم یہاں
منزل قریب اور صنم ہو جدا کدھر
ہے عالمِ ہُو چھانے سے ناصؔر یہ حال کچھ
زلفیں پڑی ہیں بکھری تو یہ آئنہ کدھر

0
90