تجھ سے بچھڑ کے خود کو سنوارا نہیں کبھی
دل نے کسی کو بھی پکارا نہیں کبھی
میں نے ہر ایک زخم کو چُھو کر ہنسا دیا
اپنے غموں کو میں نے سنوارا نہیں کبھی
تیری جدائی عمر کی صورت بنی رہی
دن بھی سکون کا گزارا نہیں کبھی
کتنے ہی لوگ آئے، مگر دل نے یہ کہا
ایسا تو کوئی بھی ہمارا نہیں کبھی
اب بھی خیال آتا ہے تیری آنکھوں کا
ایسا سکوت پھر دوبارہ نہیں کبھی
تیری یاد میں راتیں بیتیں بے شمار
نیند نے بھی میرا سہارا نہیں کبھی
ہر خوشی کا لمحہ لگتا تھا فریب سا
مسکراہٹ میں بھی اقرار نہیں کبھی
دل کی دنیا میں بس ایک ہی سایہ رہا
تیری کمی کا جادو چھپا نہیں کبھی
اب ندیم چپ رہو، سوالات کیا کرو
جو کھو گیا، وہ اب دوبارہ نہیں کبھی

0
5