یا تو وقفِ آرزو یا مبتلائے خُو رہے
ہم وہ عاقل ہیں جو دریا میں تلاشِ جُو رہے
زندگی موج و تموّج ہے تو کیوں اس پر ملال
یہ کسی چھپّر کی ہو یا بزمِ رنگ و بُو رہے
آؤ ان گم گشتہ راہوں پر ملیں پھر ایک بار
مَیں جہاں پر مَیں نہ ہوں تُو بھی نہ دلبر تَو رہے
کونسی دنیا ہے یارب مَیں کہاں پر آ گیا
نہ وہ بستی ہے گلی کُوچے نہ کاخ و کُو رہے
کیوں نفور و نالاں ہیں مجھ سے مرے احباب وہ
کل تلک جو میرے جسم و جان کے بازو رہے
حشر کا دھڑکا کسی کو ہو تو ہو گا بالضّرور
ہم اسیرانِ نگاہ و غمزہ و ابرو رہے
کیا کریں جب دل کسی تخریب میں لگتا نہ ہو
ہاں مگر اتنا تو ہے تعمیر میں یک سُو رہے

0
112