یک لحظۂ وصال سے گزرا ہوا وجود |
اب تک غریقِ خواب ہے جاگا ہوا وجود |
پہلے کھنکتی خاک سے پیدا کیا گیا |
پھر جا کے اس زمین پہ برپا ہوا وجود |
آتے ہو لوٹ جاتے ہو اس شہرِ قلب سے |
گویا کہ آنے جانے کا رستہ ہوا وجود |
پھر یوں ہوا کہ آنکھ سے اوجھل سا ہو گیا |
اشکوں سے میری آنکھ میں گُھلتا ہوا وجود |
گنتا ہے روز تیرے ستارے سرِ زمین |
آکاش تیری گود سے اترا ہوا وجود |
ہوتا ہے روز نیند کی وادی میں جا غروب |
سورج کی طرح شام کو ڈھلتا ہوا وجود |
اے چشمِ نم تو قلب کا کچھ تو خیال کر |
دریا ترے کنارے پہ صحرا ہوا وجود |
لو آج گر چکا ہے کٹے پیڑ کی طرح |
ہر لمحہ انتظار میں جھکتا ہوا وجود |
کیوں پڑ رہی ہیں کان میں آوازیں بین سی |
کیوں سامنے پڑا ہے یہ ادھڑا ہوا وجود |
معلومات