ستم طوفاں کرے برپا، خزاں ہونے نہیں دیں گے
چمن پر برق کو نا مہرباں ہونے نہیں دیں گے
نچھاور مدعا پر ہوں، فغاں ہونے نہیں دیں گے
فنا ہوں گے مگر جی کا زیاں ہونے نہیں دیں گے
عزائم پختہ ہیں تو، بے خطر کوئے طلب بڑھنا
گھٹائیں چھائی گر، نیرنگیاں ہونے نہیں دیں گے
غریبوں پر بھلا جور و ستم منظور ہو کیسے
انہیں ہرگز کبھی ناشادماں ہونے نہیں دیں گے
بگڑ جائے نظام عدل تو آواز گونجے گی
کہ ناانصافی کو ہرگز یہاں ہونے نہیں دیں گے
ہوائیں تیز ہو پر راہ میں تنہا نہ چھوڑيں گے
یقیں رکھئے، بلائے ناگہاں ہونے نہیں دیں گے
ملے گا دو جہاں میں خیر کا ناصؔر صلہ سب کو
کہ مالک کاوشوں کو رائگاں ہونے نہیں دیں گے

0
29