کیوں وہ دیکھا نہیں کرتے کبھی پیچھے مڑ کے
ہم بھی دیکھیں ذرا اوقات سے اونچا اڑ کے
ٹوٹ سکنا کہاں آسان تھا زنجیروں کا
ہم نے رہنا کبھی سیکھا ہی نہیں ہے جڑ کے
سبز پتوں کو شجر کے یہ گماں کب تھا وہ
سوکھ کر خاک میں مل جائیں گے سب مڑ تڑ کے
کیسے ممکن ہو افاقہ کسی بیماری میں
گلگلوں سے کریں پرہیز، ہوں رسیا گڑ کے
چلنے والے ہیں بہت ساتھ کھڑے ہیں کتنے
دیکھتے جائیے ہر گام ذرا مڑمڑ کے
ہاں مگر ریشمی رومال کی صورت یارو
اس کے ہاتھوں میں تو ہیں لاکھ سہی چڑمڑ کے
اس کا دکھ اِس سے بیاں، ہو کوئی مرغی جیسے
دے تو انڈا وہ کہیں شور کہیں کڑکڑ کے
ہم ابھی گاؤں سے آئے ہیں، پریشانی ہے
عادی ہو جائیں گے شہروں کی سبھی ہَڑدڑ کے
اک فسانہ ہی حبیب آج لگے، ماضی میں
ہم بھی زنجیر کی کڑیوں سا رہے تھے جڑ کے

0
37