تیغ و تبر کو چھوڑ کر ہم نے قلم پکڑ لیا
دینِ خدائے مصطفٰے کا جو علَم پکڑ لیا
نورکے پیچھے چل پڑے بھٹکیں گے کیسے ڈر نہیں
اس کے ہی پیروکار تھے اس کا قدم پکڑ لیا
دوش نہ دو کہ عشق میں شاہِ عرب پہ ہم فدا
اس کی وفا میں دامنِ شیخِ عجم پکڑ لیا
عشقِ بتاں ترَک کئے اُس نے صلیب توڑ دی
دیر و کلیسا او حرم میں سے حرم پکڑ لیا
حسنِ ازل ہے جاوداں بت کدے سارے عارضی
اس کو ذرا بتاؤ تو جس نے صنم پکڑ لیا
دیکھا ہے رشک سے اسے جس نے بھی جان وار دی
ہوکے شہید جس نے بھی باغِ ارَم پکڑ لیا
ظلم سکھا رہے تھے جو ان سے رہی مغائرت
جس نے سکھایا پیار پھر وہ ہی دھرم پکڑ لیا
باہمی اختلاف نے فرقے بنا دیے کئی
کرنے تھے جس نے فیصلے اس کو حَکَم پکڑ لیا
ہم کو خدا کے فضل نے خود یہ دکھایا راستہ
ہم نے فروع چھوڑ کر نقطہ اہم پکڑ لیا
ہاتھ جو اس کے ہاتھ میں طارقِ خستہ نے دیا
عجز کی راہ پر چلا جاہ و حشم پکڑ لیا

0
8