سُکھوں کے ساتھ گھنے سے غموں کے پہرے ہیں
قدم قدم پہ گلستاں میں خار بکھرے ہیں
زبان سے کہے توحید پر عمل خالی
فقط ہمارے یہ تو لمبے چوڑے دعوے ہیں
انانیت سے بھری ہوئی زندگی ساری
دبوچ لیگا فرشتہ تو پھر اندھیرے ہیں
لعیں نے مخمصہ پیوست دل میں کر ڈالا
ہوائے نفس میں کیسے سبھی ہی الجھے ہیں
تماشہ تو نہیں کچھ جب کہ دیکھتے آئیں
عذاب رب کا کئی بار ہم نے جھیلے ہیں
شریف بننے کی محنت ضروری ہی سمجھے
رذیل سی کریں حرکت تو پھر کمینے ہیں
لگن سمانے سے ناصؔر مشن بنے آساں
تھپیڑے کھاتے رہیں جو، وہ صرف نکھرے ہیں

0
43