کسی دشمن کی ہم کو یوں طرف داری نہیں آتی
وفائیں خوب کرتے ہیں، اداکاری نہیں آتی
وجہ کیا ہے جو نفرت کی ہمیشہ بات کرتے ہیں
محبت کی بھلا کیوں دل میں چنگاری نہیں آتی
یہ ناداں قوم ہیں اپنی کہ جب طوفان آتا ہے
وہ بس شکوہ ہی کرتے ہیں کہ تیاری نہیں آتی
سوئے ہیں خوابِ غفلت میں نہیں ملت سے کچھ مطلب
جگانے پر بھلا کیوں ان کو بیداری نہیں آتی
جب ایماں کی حلاوت سے معطر ہی نہ ہو سینہ
سبب یہ ہے جو رحمت کی فراوانی نہیں آتی

0
37