یہ مانا زندگی میں غم بہت ہے |
تمہارے غم کے آگے کم بہت ہے |
نہ پھیرو ہاتھ زلفِ دل ربا پر |
وہاں پر پیچ ہیں اور خم بہت ہے |
محبت دائمی و ہستی عدم ہے |
مری ہستی کو اس کا غم بہت ہے |
یہ داغِ دل، غمِ ہستی و جاں سب |
کرم تیرا مرے ہمدم بہت ہے |
صنم آنکھوں کے بجھتے ہیں دیے اب |
چلے آؤ، *اثر* بیدم بہت ہے |
معلومات