یہ مانا زندگی میں غم بہت ہے
تمہارے غم کے آگے کم بہت ہے
نہ پھیرو ہاتھ زلفِ دل ربا پر
وہاں پر پیچ ہیں اور خم بہت ہے
محبت دائمی و ہستی عدم ہے
مری ہستی کو اس کا غم بہت ہے
یہ داغِ دل، غمِ ہستی و جاں سب
کرم تیرا مرے ہمدم بہت ہے
صنم آنکھوں کے بجھتے ہیں دیے اب
چلے آؤ، *اثر* بیدم بہت ہے

0
1
61
یہ مانا زندگی میں غم بہت ہے
تمہارے غم کے آگے کم بہت ہے

جب زندگی کی بات کر رہے ہیں تو کوئی ایک غم تو نہیں ہوتا کہ کہیں زندگی میں غم بہت ہیں - یہاں ہونا چاہیئے کہ زندگی میں غم بہت ہیں - غم بہت ہے ، صرف ایک غم کی طرف اشارہ ہے اور شعر میں ایسی کوئی تخصیص نہیں ہے

0