نہ ملنے کے اشارے دے گئے ہو
خسارے ہی خسارے دے گئے ہو
کہوں کیسے میں خود کو بے سہارا
کہ یادوں کے سہارے دے گئے ہو
حیاتِ جاودانی میں اُتر کر
دل و جاں کو کنارے دے گئے ہو
کروں گا کس لیے نفرت کہ مجھکو
محبت کے ستارے دے گئے ہو
نہیں دکھتا سوائے اُنکے کچھ بھی
نگہ کو جو نظارے دے گئے ہو

0
11