یہ زماں یہ مکاں، بے نشاں کے نشاں
یہ جہاں وہ جہاں، اللہ کا ہے نشاں
وہ نظر آکے بھی، وہ نہ آئے نظر
وہ نہاں ہے عیاں، وہ عیاں ہے نہاں
یہ ترا ہے گماں، ہو گا اس کا مکاں
وہ گماں سے ورا، در مکاں، بے مکاں
کوئی سمجھے یہاں، کوئی کہتا وہاں
وہ یہاں نا وہاں، ہر طرف ہے سَمَاں
وقت کی بات کیا، سال و اوقات کیا
وقت سے ماورا، وہ خودی ہے زماں
حرف کا ساز وہ ، لفظ آغاز وہ
وہ کتاب و زباں، بات اور، ہے بیاں
خلق جو بھی کیا وہ عدم سے کیا
ذات کی چھاپ سے سج گیا ہے جہاں
غم خوشی ،خیرو شر، یہ قدر وہ مکر
ایک تصویر میں پھول اور ہے خزاں
تو ہی جانے کیا تو ہے ، اللہ ھو ہے
رب کو جانے بنا زندگی ہے زیاں
تو ہے اعلٰی تو اولٰی تو مولا مرا
کر عطا تو رضا، تو ہی تو ہے اماں

0
4