حالات نے جینے کا امکان بدل ڈالا
کچھ ریت نئ رکھی رجحان بدل ڈالا
دربارِ دل و جاں کی مشکل تھی نگہبانی
راجہ نے اسی ڈر سے دربان بدل ڈالا
تدریج تدبر نے تعمیر تفکر نے
انسان کے اندر کا انسان بدل ڈالا
تقسیم نے بس اتنا احسان کیا ہم پر
زنجیر بدل ڈالی زندان بدل ڈالا
آنکھیں بھی غزل اسکی باتیں بھی غزل اسکی
سو ہم نے عوض اس کے دیوان بدل ڈالا
دریاے محبت میں سہما نہ کبھی راہی
جذبوں کے تھپیڑوں سے طوفان بدل ڈالا

0
49