اصولِ بے وفائی سب تمہی سے میں نے سیکھے ہیں
کہاں آتا تھا مجھ کو یوں کسی سے بے وفا ہونا
حسیں چہروں کا پیکر تو مرے رب کی عطا سے ہے
کہاں آتا ھے تم کو یوں کسی سے با وفا ہونا
دنوں میں ہی بدل جانا تمہاری تو یہ عادت ہے
کہاں آتا ہے تم کو یوں کسی کا دلربا ہونا
وبالِ جاں بنے ہو کیوں محبت بھی تو لازم تھی
کہاں آتا ہے تم کو یوں کسی کی بھی ضیا ہونا
جہانِ دل میں تم جیسے بہت دیکھے ہیں میں نے بھی
کہاں آتا ھے مجھ کو یوں حواسِ باختہ ہونا
خدا جانے حلاوت کیا تھی اس کے سرد لہجے میں
کہاں آتا ہے مجھ کو یوں تبسم پر مرا ہونا

0
91