اپنے مطلب کی کسی بات کا مارا ہوا ہے
یہاں ہر شخص مفادات کا مارا ہوا ہے
ایک تو ذہن، جو حالات کا مارا ہوا ہے
دوسرا دل ہے کہ جذبات کا مارا ہوا ہے
پوچھی جو وجہ جفا تو کہا چڑ کے سرِ بزم
یہ دیوانہ ہے خرافات کا مارا ہوا ہے
حاصلِ عیش و طرب کیا، ہو قرارِ جاں کیا
جو ترے وصل کے لمحات کا مارا ہوا ہے
سر بہ سر خاک ہے، دشنام ہے، اور طعنے ہیں
کوۓ یار ایسی مدارات کا مارا ہوا ہے
ساقی کہتا ہے کسی یاد میں گم ہو کے پی جا
شیخ اوّل سے ہدایات کا مارا ہوا ہے
ذہنی بیمار ہے اے زیبؔ یہ دنیاۓ جدید
آدمی خواہشِ عورات کا مارا ہوا ہے

0
99