آسماں تک رسد نہیں ہوتی
عرض کی جب رَوَد نہیں ہوتی
عشق کی صبر آزمائش ہے
ضبط کی کوئی حد نہیں ہوتی
پاؤں چھُوتی ہے بچھ کے قدموں میں
گھاس گو سرو قد نہیں ہوتی
جب بھروسہ ہو اپنی طاقت پر
پھر خدا کی مدد نہیں ہوتی
باعثِ دشمنی ، جہالت ہے
ورنہ فطرت تو بد نہیں ہوتی
وہ جو کرتے نہیں سوال کبھی
کیا ضرورت اشدّ نہیں ہوتی
ہو نہ آزاد فیصلوں میں جو
بات اس کی سند نہیں ہوتی
آنکھ جب تک نہ کھول دی جائے
روشنی تا ابد نہیں ہوتی
عشق ہی کودتا ہے آتش میں
اس کی قائل خِرَد نہیں ہوتی
شرط ہے دل سے نکلی ہو طارقؔ
وہ دُعا پھر تو رد نہیں ہوتی

0
8