مری عرض ہے مرے یار سے مجھے اتنی سخت سزا نہ دے
نہ مری نظر سے جدا ہو وہ نہ مجھے نظر سے جدا کرے
میں فنا ہوا ترے عشق میں مجھے موت کیسے فنا کرے
مری زندگی تری دید میں کوئی زندگی کی دعا کرے
میں گناہوں سے ہوں گھرا ہوا مجھے دست سے تو سنبھال لے
مجھے کر فنا تری ذات میں مجھے دید تیری ہوا کرے
تو ملے کبھی مجھے خواب میں مری آنکھ کو یہ صلہ ملے
مجھے کر عطا دلِ آشنا تری یاد دل میں بسا کرے
میں تری بہار کا پھول ہوں میں کھلا بھی ہوں تو ترے لیے
تری یاد دل میں بسا دے یوں نہ کسی کی یاد بسا کرے
میں نے پی ہے مے ترے عشق کی مجھے کیا غرض کسی اور سے
میں مریضِ عشقِ رضا ہوا کوئی درد کی نہ دوا کرے
ہوں ترا حبیب میں اے رضا مجھے اپنے در پہ ہی باندھ لے
دلِ نور کی ہے طلب یہی ترے در پہ یوں ہی پھرا‌ کرے
ترے عشق کی مجھے ہے طلب مجھے عشق میں تو ڈبا ہی دے
دلِ نور کی ہے تڑپ یہی ترے عشق میں ہی جیا کرے

102