آ تجھ کو زمانہ میں بتاتا چلوں اک بات |
جو بات مرے ذہن میں آئی تھی کسی رات |
بیچین و پریشاں ہو ،جو مضطر ہو اگر دل |
بیتاب نگاہوں پہ نے کٹتی ہے کبھی رات |
ایامِ خوشی میں تو گذر جاتے ہیں اوقات |
ایامِ مصیبت میں گذرتے نہیں لمحات |
پر شوق دل و جاں ہو کہ آزردہ خیالات |
بیدار جوانوں پہ بہت شاق ہے یہ رات |
ہے پندِ حکیمانہ یہی رازِ ہویدا |
پختہ ہو عزائم تو کبھی کھاتے نہیں مات |
ہے خاک و ہوا آتش و جل، خلق میں تیرے |
ان چار عناصر سے ہے فولاد تری ذات |
. |
افسوس کے وہ بازو ئے مسلم نہ رہا اب |
کرتے جو کبھی زیر سمرقند و بخارات |
. |
اس دورِ قیامت میں مسلماں کے حرم میں |
ہیں لاکھ سے بڑھ کر کہ یہاں عزی حبل لات |
نے مرگ کی لذت ہے نہ بیزارئَ دنیا |
مومن بھی ہے اس دور میں مانندِ نباتات |
دنیا میں کرے عام سدا دین کی عظمت |
ہے دل میں نہیں باقی وہ شوق وہ جذبات |
ہو دھر کے سلطاں ترے جاروب کشوں میں |
آتے ہی نہیں اب یہ ترے دل میں خیالات |
اورنگِ سلیماں نہیں کیوں دوش پہ میرے |
یہ سلسلۂ آب و ہوا کرتی شکایات |
کیا کیا ہو گلہ وارثِ فاروؓق و علؓی سے |
میداں بھی ہے خالی اور مفقود عبادات |
. |
ہے مجھ کو شکایت یہ جوانوں سے گلہ ہے |
پہلوں سے نہیں آج ترے خصلت و عادات |
. |
افسوس کہ حیران و پریشاں ہے جہاں میں |
آتے تھے ستارے بھی کبھی جس کے یاں بارات |
ہو عزم جواں تجھ میں تو آفاق بھی لاشی |
ہیں دھوکہ یہ اسباب و ذرائع یہ آلات |
دیکھی ہے مری چشمِ بصیرت نے کہ امروز |
ہے ہند میں مسلم کی بقا کہنہ روایات |
شمعِ دلِ مسلم ہے جو باطل کی ہوا میں |
بجھنا ہے سرے سے یہ بھڑکنے کے علامات |
ہے شوقِ سیاست جو پریشاں مرے دل میں |
کب سے یہ مچا رکھا ہے ہنگامہ ،خرافات |
امیدِ قوی ہے کہ کسی دن تو ملیں گے |
چشمِ دلِ ہستی کو وہ اسرار و کنایات |
. |
اسلام کی خوبی ہے کے ایک ہی صف میں |
رہتے ہیں کھڑے دھر میں انصاری و سادات |
. |
اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو بولوں |
سننا ہے ذرا غور سے اے صاحب و حضرات |
ہر روز میں کہتا ہوں یہی بات کہ آخر |
رہ رہ کے ابھرتے ہیں مرے دل میں یہ خدشات |
امروز سیاست میں اگر رہ گئے پیچھے |
سر پر کوئی چکرائیں گے انجان سے خطرات |
ہو دشت و بیاباں میں اگر قید بھی شاہیں |
فطرت میں ہے اسکی کہ وہ لیتا نہیں خیرات |
کرگس کے فدائیں کو گلستاں سے نکالو |
سرسبز رہے آیینِ دیں کے یہ باغات |
. |
مجھ کو تو ڈراتے ہیں یہ سہمے ہوئے لمحات |
یہ ہند میں مسلم کے بگڑتے ہوئے حالات |
. |
جس شہر سے اٹھ جاتا ہے یک لخت مواخات |
ہوتے ہیں شب و روز وہاں فتنہ، فسادات |
آنکھوں کو ذرا کھول کہ ناداں بھی نہیں ہو |
ہے وقت ابھی بھی ہو تلافئ مافات |
دستورِ جہاں ساز ہی دستورِ جہاں ہو |
یہ چیخ کے کہتی ہیں قرآن کی آیات |
پڑھ کر کے ذرا دیکھ تو ناقص کے خیالات |
کچھ خاص نہیں پھر بھی ہو شاید کہ یہ ابیات |
تاثیر بھی رکھتی ہیں اگر ذوقِ نظر ہے |
خالی ہیں سرودوں سے مرے گرچہ یہ نغمات |
. |
ہونگے ہاں تمہیں پھر سے دکھانے وہ کمالات |
ہونگے ہاں نہیں اب کے کرشما و کرامات |
. |
تو ذرۂ خاکی ہے مگر ہم رہِ خورشید |
ہے قبضۂ قدرت میں یہ دنیا کے امارات |
جس قوم کو خود اپنی بقا کی نہ ہو پروا |
اس قوم کے مٹ جاتے ہیں آثار و نشانات |
کرنا ہے تمہیں پھر سے میسر ہے سبھی کچھ |
اے چرخ نشیں! وارثِ ارض و سماوات |
روشن ہو بیاں تجھ پر کھل جائے یہ منطق |
موسم کے خد و خال یہ قدرت کے ہدایات |
وہ دورِ سلاطین تجھے یاد نہیں کیا |
قدرت بھی طرفدار تھی ہوتی تھیں عنایات |
دامن کے نشینوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی |
اس کوہ سے گرنے کے کیا کیا ہیں وجوہات |
آدابِ سحر گاہی بجا لانا فتوحات |
سونے سے ہے بہتر یہ کہیں رشکِ مناجات |
. |
ہے بزم کی فطرت کہ انہیں جوڑ کے رکھے |
ہے رزمِ تقاضہ کہ ہو آپس میں منافات |
. |
ہوتے نہیں مایوس کبھی مؤمنِ میداں |
لازم ہے کرو خاک نشیں! پھر سے شروعات |
ہونٹوں پہ سوالات سجانے سے ہے بہتر |
کچھ ایسا کرو آپ کہ مل جائیں جوابات |
جب دل ہی رہے وعظ و نصیحت سے پرے پھر |
تاثیر نہ رہ جاتی کوئی مغزِ خطابات |
ہر آن جو دیکھا ہے یہی آئی صدائیں |
بے جا ہیں یہ وعظ و نصیحت یہ بیانات |
نا شوقِ کشی ہے تمہیں نا ذوقِ نمو ہے |
مے خانہ ہستی تری ویران خرابات |
. |
اے غافلِ دوراں! مجھے اک بات بتا دے |
کافی نہیں کیا تجھ کو یہ قدرت کے اشارات |
. |
گوہر کو ذرا دیکھ کہ اک عمر لگی ہے |
ایسے ہی نہیں ملتے کہیں منصب و درجات |
ہر چیز ہے روشن کہ ہے ہر شی میں نشانی |
پڑھ لو تو ہے قدرت کے کھلے رازوں کے صفحات |
تازہ ہے کلی، پھول جو گلشن میں چمن میں |
جو وجہِ تبسم ہے وہ شبنم کی ہے برسات |
گلشن میں اگر ہو تو بنو لالہ و گلفام |
خاشاک و خس و گھاس کی ہے کثرت و بہتات |
مالی کے لئے باغ کے لازم ہے کہ جانے |
کیا کیا ہیں گلستاں کے تقاضا و حاجات |
ہیں کام بہت باقی ابھی دہر میں شاہی ؔ |
رک جا تو ٹھہر جا اے ذرا ھاذمِ لذّات |
معلومات