نہ عذاب لکھ رہا تھا نہ خراب لکھ رہا تھا
یہ جہان تجھ سے پہلے میں گلاب لکھ رہا تھا
ترے ساتھ جو گزارے سبھی لمحے یاد کر کے
ترے واسطے جو رویا میں حساب لکھ رہا تھا
تجھے بھا گیا ہے آخر یہ زمانہ جانے کیسے
یہ زمانہ اک خدا کا تُو عتاب لکھ رہا تھا
جو غریب زندگی پہ ہی سوال کر رہی ہوں
وہ کہانیاں غریبوں کی نواب لکھ رہا تھا
میں نہیں یہ جانتا تھا کہ یہ شاعری بنے گی
مرے درد سے بھری جو میں کتاب لکھ رہا تھا
ترے بعد جو زمانے میں کئے گئے ہیں مجھ سے
میں ابھی انہی سوالوں کے جواب لکھ رہا تھا
تو میاؔں تری طرف سے گلہ ہو گیا ہے اس سے
تُو کبھی اسی محبت کو شباب لکھ رہا تھا
میاؔں حمزہ

35