نئی تحریر لکھنے کو کئی عنوان باقی ہیں |
صحیفے نشر کرنے کو ابھی میدان باقی ہیں |
فتوحاتِ زمانہ صرف باتوں سے نہیں ہوتیں |
عمل کا ہو گیا فقدان گو ایمان باقی ہیں |
ہیں تپتی دھوپ میں جھلسے بڑی مدّت سے ویرانے |
مگر زمزم جہاں پھوٹا وہی فاران باقی ہیں |
فلک نے ابر برسایا ہے رحمت کا گھٹا کے بعد |
نئی کھیتی اگانے کو بہت کھلیان باقی ہیں |
سفر کرتے ہوئے منزل کی جانب بڑھ گئے ہیں ہم |
ہوئے طے مرحلے مشکل بس اب آسان باقی ہیں |
نکل آیا ہے سورج روشنی ہے اس طرف آؤ |
بتانا ہے ضروری ان کو جو انجان باقی ہیں |
خدا کا نام لینے پر گرفتاری تو کرتے ہو |
مگر کتنے بھرو گے کیا ابھی زندان باقی ہیں |
گلا گھونٹا بہت سی بند کر دیں تم نے آوازیں |
مگر اب بھی پرندے ہیں جو خوش الحان باقی ہیں |
خدا سے دشمنی کب راس آئی ہے کسی کو بھی |
گزرنا ہے تمہیں جن سے ابھی بحران باقی ہیں |
خدا سے کیا ملائے گا نہیں فرصت ہے واعظ کو |
کبھی حوریں تصوّر میں کبھی غلمان باقی ہیں |
اسے قرآں حدیثوں کے حوالوں سے غرض کیا ہو |
ابھی تو اس کے بستے میں کئی بہتان باقی ہیں |
فرشتوں پر فضیلت آدمی کو جن کے دم سے ہے |
غنیمت ہے ابھی دنیا میں وہ انسان باقی ہیں |
میں ہر لمحہ گنوں تب بھی نہیں ممکن شمار اُن کا |
خدا کا شُکر کرنے کو بہت احسان باقی ہیں |
ابھی سجدے میں گرنا ہے ابھی راتوں کو رونا ہے |
ابھی اشکوں سے دھونے کو مرے عصیان باقی ہیں |
گنا ہوں کا ہی پلڑا ڈر یہ ہے بھاری نہ ہو جائے |
جھکائیں نیکیوں کو جو وہ کم اوزان باقی ہیں |
توقّع ہی نہیں رکھی کبھی انصاف کی ان سے |
کبھی جو عدل کرتے تھے کہاں سلطان باقی ہیں |
محبّت میں ہمیں سودا کبھی کرنا نہیں آیا |
منافع لے گئے سارے یہاں نقصان باقی ہیں |
یہاں دینے میں سودا ہو رہا ہے ہر طرف دھوکا |
جو پورا تولتے ہوں وہ کہاں میزان باقی ہیں |
اگرچہ بادشہ ہے سر پرست عیسائی مذھب کا |
مگر چاروں طرف گرجے یہاں ویران باقی ہیں |
ہوئی ہے امّتِ مرحوم کی حالت پرا گندہ |
مسلماں ہیں جو لاشوں کی طرح بے جان باقی ہیں |
ہوئے رخصت تعلّق دوستی کے بھائیوں جیسے |
کہاں ساتھی ہوا کرتے تھے جو یکجان باقی ہیں |
نہیں ملتا کوئی جو مطمئن دنیا سے ہو طارِق |
اگرچہ کچھ ہوئے پورے بہت ارمان باقی ہیں |
معلومات