بتاتے ہیں ہمیں کیوں بے خودی پہ پیار آیا |
ہم اپنے آپ سے گُم ہو گئے، تو یار آیا |
نہیں تھا ہوش میں ورنہ اسے جکڑ لیتا |
اڑایا ہوش مرے پھر وہ ہوشیار آیا |
بھلا ہو بے خودی کا ساتھ لے کے یار آئی |
جنوں کی زین پہ چڑھ کر ہی دل سوار آیا |
صفت تھی خاک کی خاکی مزاج تھا اس کا |
جلایا دل کی صراحی تو کچھ نکھار آیا |
جو عشق توڑتا تھا تھوڑا تھوڑا دل کا بت |
تو درمیان مجھے ہوش بار بار آیا |
ادا جو عشق کا سجدہ کیا تو ہوش میں تھا |
پتہ چلا ہی نہیں کس طرح خمار آیا |
کیا ہوں لاکھ جتن میں ذکیؔ کسی صورت |
"مگر نہ اس دلِ بے صبر کو قرار آیا" |
معلومات