بتاتے ہیں ہمیں کیوں بے خودی پہ پیار آیا
ہم اپنے آپ سے گُم ہو گئے، تو یار آیا
نہیں تھا ہوش میں ورنہ اسے جکڑ لیتا
اڑایا ہوش مرے پھر وہ ہوشیار آیا
بھلا ہو بے خودی کا ساتھ لے کے یار آئی
جنوں کی زین پہ چڑھ کر ہی دل سوار آیا
صفت تھی خاک کی خاکی مزاج تھا اس کا
جلایا دل کی صراحی تو کچھ نکھار آیا
جو عشق توڑتا تھا تھوڑا تھوڑا دل کا بت
تو درمیان مجھے ہوش بار بار آیا
ادا جو عشق کا سجدہ کیا تو ہوش میں تھا
پتہ چلا ہی نہیں کس طرح خمار آیا
کیا ہوں لاکھ جتن میں ذکیؔ کسی صورت
"مگر نہ اس دلِ بے صبر کو قرار آیا"

1
141
جناب آپ اچھا کہہ رہے ہیں تھوڑی زبان و بیاں پر توجہ کی ضرورت ہے

0