محبت کرنے والوں کو محبت توڑ دیتی ہے
یہ وہ چسکا ہے ہو جائے تو غیریت توڑ دیتی ہے
بکھر جانے دیا ہوتا سنوارا کس لیے تو نے
مجھے ہر روز اب تیری عنایت توڑ دیتی ہے
ترا اک قرض ہے مجھ پر ادا ہو ہی نہیں پاتا
اے میرے دوست مجھ کو تیری رغبت توڑ دیتی ہے
کبھی مندر بھی توڑا تھا کسی راجا نے کیا معلوم
مگر اس دور میں مسجد حکومت توڑ دیتی ہے
کسی بھی غیر سے کر لینا بیٹھے گفتگو تیری
دیوارِ دل گرا دیتی ہے اور چھت توڑ دیتی ہے
مجھی کو چھوڑ کر اس کے ہیں رشتے دار ہر کوئی
ہمیشہ ہی مجھے ایسی مروت توڑ دیتی کے
امیری ہر کمی دولت کے پردے میں چھپاتی ہے
غریبوں کو ہنر دے کر بھی غربت توڑ دیتی ہے
اگر مٹی کی مورت حد سے زیادہ سخت ہو جائے
تو پھر یہ دھوپ کی شدت وہ مورت توڑ دیتی ہے
جہاں دستار جانے کا ہو خطرہ باپ کے سر کا
وہاں بیٹی سب اپنے دل کی نیت توڑ دیتی ہے
میں اپنے حال کا کیا تذکرہ کس سے بھلا کرتا
بہت مضبوط خالد کو ضرورت توڑ دیتی ہے

0
35