جو دور کوئی کنارہ دکھائی دیتا ہے
وہاں بھی آگ کا دریا دکھائی دیتا ہے
وہ آنکھ جس میں ذرا روشنی نہیں ہوتی
اسے اجالا اندھیرا دکھائی دیتا ہے
بس ایک آس کبھی تو خیال آئے گا
وہ کون ہے جو اکیلا دکھائی دیتا ہے
یہ سچ ہے اس سے نہیں کوئی بھی شنا سائی
مگر یہ کیا ہے کہ دیکھا دکھائی دیتا ہے
بہر لحاظ وجود و عدم کا یہ عالم
ترے بغیر ادھورا دکھائی دیتا ہے
ہر ایک شعر میں الفاظ کی فسوں کاری
ہر اک خیال اچھوتا دکھائی دیتا ہے
حذر حذر کہ یہی سوچ کھا گئی ہم کو
یہ کون ہے یہ کہاں کا دکھائی دیتا ہے
خیال میں اسے لا کر گرفت میں لے لوں
جو مثلِ خوشبوئے لالہ دکھائی دیتا ہے
حبیب کب سے انھیں گنبدوں کی قیدی ہے
صدا کا جرم بلا کا دکھائی دیتا ہے

0
58