ہر طرف شہر میں پھیلا ہوا شر لگتا ہے
اب تو بچوں سے بھی اپنے مجھے ڈر لگتا ہے
کیوں جڑیں میری زمیں کوئی پکڑتی ہی نہیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں سفر لگتا ہے
میری دنیا اپنے محور سے ہٹی ہے جب سے
زیر بھی دیکھوں تو مجھ کو وہ زبر لگتا ہے
میری کشتی ہی کنارے پہ ہمیشہ ڈوبی
اپنی تقدیر میں مجھ کو تو بھنور لگتا ہے
اپنی غربت کی یہ حالت ہے کہ شاہد اب تو
سنگ بھی دیکھوں تو مجھ کو وہ گہر لگتا ہے

0
74