جب کہنے کو ہے کہا، کچھ بھی نہیں
تو سننے کو بھی رہا، کچھ بھی نہیں
ہے کچھ بھی نہیں ترے بعد یہاں
ہے مرنے کی اب سزا، کچھ بھی نہیں
مشروط ہے خُلد بھی سجدوں سے گر
کیا ہجر کی پھر جزا، کچھ بھی نہیں؟
کے بادِ صبا ہو کہ خندۂِ گل
دِکھتی ہے تری ادا، کچھ بھی نہیں
جائز ہے وجہِ کنارہ کشی
اُمیدِ وفا رہی، کچھ بھی نہیں
پالے ہوئے تھے سانپ آستیں میں
پھر خوفِ دغا رہا، کچھ بھی نہیں
مشکل ہو کہ سہل ہو وقت مگر
باقی تو رہا سدا، کچھ بھی نہیں
سِمٹا نہ حیات میں عشق کبھی
دنیا سے گلہ بجا، کچھ بھی نہیں
تھا وصل بھی، غمِ ہجر بھی تھا
پر بانٹنے کو بچا، کچھ بھی نہیں
رکھتے تھے حساب وہ ہجر کا جب
لوٹائی مگر قضا کچھ بھی نہیں
تلخیءِ فراق ہے مہرؔ بہت
ملنے کا رہا مزا، کچھ بھی نہیں

0
62