میری بس داستان اتنی ہے
بات اپنی ہی صرف مانی ہے
آج کا کام کل پہ ڈالا ہے
کل کی پرواہ ہی نہیں کی ہے
ہوا میں کیے کھڑے محل کتنے
ان کو بنیاد پھر نہیں دی ہے
من و سلویٰ کا انتظار کیا
آرزو آج بھی اسی کی ہے
بات ساری یہاں ہے محنت کی
صرف باتوں سے وہ بہت کی ہے
" دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے "
خود بھی میں نے کوئی کمی کی ہے
آج سے ٹھان لی ہے یہ شاہد
زندگی اک نئی شروع کی ہے

64