سرخ اودی لب و رخسار سے جلتے ہیں لوگ
جانے کیوں مجھ سے مرے پیار سے جلتے ہیں لوگ
تندرستی کی جلن زود یقینی ہے مگر
کیا تعجب ہے کہ بیمار سے جلتے ہیں لوگ
یہ نہیں سوچتے اللہ ہمیں بھی دے گا
دیکھ کر چیز خریدار سے جلتے ہیں لوگ
خود کسی کھیت کی مولی نہیں ہوتے شاید
اس لیے صاحب کردار سے جلتے ہیں لوگ
پڑھ تو لیتے ہیں مگر داد نہیں دیتے ہیں
اس کا مطلب مرے اشعار سے جلتے ہیں لوگ
میں کہ تنقید کو کچھ ایسے سمجھتا ہوں کلیم
خود ہو بیکار تو فنکار سے جلتے ہیں لوگ

177