جو تم سے بچھڑے تو یادِ ماضی تمھارا نعم البدل بنے گی
کہ اک اداسی اٹھے گی دل میں جو ہر اداسی کا حل بنے گی
میں شہ جہاں تو نہیں ہوں ممتاز لیکن اتنا بتا رہا ہوں
کہ تیری آمد سے میری اٹیا بھی ایک دلکش محل بنے گی
یہ زندگی جو تڑپ رہی ہے غموں کے کیچڑ میں آج میری
ذرا سا موسم بدل گیا تو مجھے یقیں ہے کنول بنے گی
مجھے خبر ہے مرے لہو سے گلی گلی میں دیے جلیں گے
میں اپنے دامن کی دھجیوں کو جو لفظ دوں گا غزل بنے گی
کہ ہم بھی مایوس ہیں اسامہ مگر دیے تو جلا رہے ہیں
امید ہے ان دیوں کا ایندھن ہماری اگلی نسل بنے گی

0
4