دل میں جو ایک راز تھا تم کو نہ ہم بتا سکے
"قصہ غم سنے گا کون" تم کو نہ ہم سنا سکے
دردر سے ٹھوکریں لگیں رسوائیاں ہم نے سہیں
گہری تھی ہجر کی لکیر اس کو نہ ہم مٹا سکے
پر تو ہمارے کٹ گئے اڑنے کی یہ سزا ملی
زنداں کا در جب وا ہوا خود کو نہ ہم اڑا سکے
تیر جو ترکش میں تھے ہم پر ہی سب برس گئے
غم نے ہمیں جھکا دیا حالات نہ جھکا سکے
پلکوں سے ہم چنتے گئے رستے میں خار تھے بہت
بے دم ہوئے اور گر پڑے وہ نہ ہمیں اٹھا سکے
دل پر کچھ ایسا بوجھ ہے سنگ گراں رکھا ہوا
کوشش تو ہم نے کی بہت اس کو نہ ہم ہٹا سکے
لمبی تھی شام غم مگر اب صبح وصال ہے یہاں
اب تو خوشی ہے چار سو غم کو نہ ہم بھلا سکے

0
58