کل گزری مری نظروں سے تحریر کسی کی
پھر گھوم گئی آنکھوں میں تصویر کسی کی
وا کر گئی ہے مجھ پہ وہ ماضی کے دریچے
شانوں پہ گری زلفِ گرہ گیر کسی کی
وہ خواب جو آنکھوں نے مری برسوں ہیں دیکھے
وہ خواب تو میرے ہیں ، ہے تعبیر کسی کی
مجھ پر ہے مرے یار کی نظروں کی عنایت
جو زخم نہ دے پائی ہے شمشیر کسی کی
تالا جو مرے دل پہ لگا ہے، ہے کسی کا
پیروں میں پڑی ہے مرے زنجیر کسی کی
میرے تو کسی کام نہیں آئی مبشّر
تدبیر بدل دیتی ہے تقدیر کسی کی

0
46