اشک بن کے مری پلکوں پہ اٹک جو گیا ہے |
میں نے کب نام وہ لب پر کبھی آنے دیا ہے |
جب ذکر بھی کبھی آیا ہے ترا باتوں میں تو |
انگلیاں بھینچی ہیں زخمی سا گریباں سیا ہے |
مجھ سے کیوں آج چھڑاتی ہے تو دامن اپنا |
زندگی تیرے لئے زہر بھی ہنس کے پیا ہے |
چاک دامن پہ مرے ہاتھ اٹھانے والے |
خود کو مارا ہے کبھی پیش جگر کو کیا ہے |
عشق دہلیز پہ اس کی ہی کیا ہے رسوا |
تو نے میرے جو رقیبوں کا یہ احساں لیا ہے |
بھیک تو مانگ نہ جینے کی جھکا کے گردن |
جاں محبت میں جو دے دے وہی جگ کا پیا ہے |
لوٹنا ہے مجھے اک روز جہاں سے شاہد |
کون تنہا کوئی دنیا میں بھی اتنا جیا ہے |
معلومات