اشک بن کے مری پلکوں پہ اٹک جو گیا ہے
میں نے کب نام وہ لب پر کبھی آنے دیا ہے
جب ذکر بھی کبھی آیا ہے ترا باتوں میں تو
انگلیاں بھینچی ہیں زخمی سا گریباں سیا ہے
مجھ سے کیوں آج چھڑاتی ہے تو دامن اپنا
زندگی تیرے لئے زہر بھی ہنس کے پیا ہے
چاک دامن پہ مرے ہاتھ اٹھانے والے
خود کو مارا ہے کبھی پیش جگر کو کیا ہے
عشق دہلیز پہ اس کی ہی کیا ہے رسوا
تو نے میرے جو رقیبوں کا یہ احساں لیا ہے
بھیک تو مانگ نہ جینے کی جھکا کے گردن
جاں محبت میں جو دے دے وہی جگ کا پیا ہے
لوٹنا ہے مجھے اک روز جہاں سے شاہد
کون تنہا کوئی دنیا میں بھی اتنا جیا ہے

0
32