پریشاں ہوں تو اسی کی بس بات کے لیے
اداسی کے شہر میں ملاقات کے لیے
ستاروں سے روشنی دبے پاؤں ہٹ گئی
زمانے میں عشق کرتے مہتاب کے لیے
محبت سے بات گر اسی نے کی ہوتی تو
نہ رہتا میں چپ کبھی فقط رات کے لیے
سبھی ساتھ رہتے تو بہت دیر تک ہیں پر
سناور سبھی نہیں مفادات کے لیے
سناور عباس
فَعُولن مفاعِلن فَعُولن مفاعِلن

0
148