فرشتوں کی صفت جیسے بچے بھرتے نظر میں ہیں
وہ سب ماں باپ کی اپنے بہت جچتے نظر میں ہیں
ضعیفی کا سہارا، آنکھ کے تارے بھی ہوتے ہیں
جواں ہو جائے جب وہ خوابوں کو بھرتے نظر میں ہیں
دعائیں کرتے مستقبل سنورنے کی ہمیسہ وہ
نمایاں کامیابی پانے سے سجتے نظر میں ہیں
کبھی اولاد کا دکھ والدیں سے نا سہا جائے
انہیں تکلیف دینے والے بھی چُبھتے نظر میں ہیں
بھلائی، پیار کے جزبے جَتاتے اُن کی عزت ہو
تعاون، خیر خواہی برتیں جو، رہتے نظر میں ہیں
ترستی ہیں ابو امی کی روحیں ان ہی لمحوں کو
ملے تمغے یہاں پھر کیسے وہ چڑھتے نظر میں ہیں
متاعِ زندگی یا کُل اثاثہ ہی کہیں ناصؔر
نچھاور کر جگر پارے سبھی بستے نظر میں ہیں

0
76