اک درد ہی مجھ کو مرا ہم نوا لگتا ہے
باقی تو ہر کوئی مجھ کو خفا لگتا ہے
مری ساری عمر اس خوش فہمی میں کٹی ہے
کہ وہ شخص بھی شاید میرے پے فدا لگتا ہے
اب تو میں اذیت کے اس درجے پر ہوں جہاں
دکھ بھی مجھے جیسے راحت افزا لگتا ہے
آخر کیوں ہے تو مسافر اس منزل کا جہاں
انسان اک شاہ ہو کر بھی گدا لگتا ہے
مت تڑپا دے آزادی مری روح کو جسم سے اب
چلو وہ تو صنم ہے مگر تو تو خدا لگتا ہے
تو مر بھی گیا تو پھر بھی وہ نہیں آئے گا
اس دن کے بعد سے اب یہی امکاں لگتا ہے
وہ تیری فاتحہ پر کیوں کر آئے بارق
بتا تو سہی آخر تو اس کا کیا لگتا ہے

0
68