اک درد ہی مجھ کو مرا ہم نوا لگتا ہے |
باقی تو ہر کوئی مجھ کو خفا لگتا ہے |
مری ساری عمر اس خوش فہمی میں کٹی ہے |
کہ وہ شخص بھی شاید میرے پے فدا لگتا ہے |
اب تو میں اذیت کے اس درجے پر ہوں جہاں |
دکھ بھی مجھے جیسے راحت افزا لگتا ہے |
آخر کیوں ہے تو مسافر اس منزل کا جہاں |
انسان اک شاہ ہو کر بھی گدا لگتا ہے |
مت تڑپا دے آزادی مری روح کو جسم سے اب |
چلو وہ تو صنم ہے مگر تو تو خدا لگتا ہے |
تو مر بھی گیا تو پھر بھی وہ نہیں آئے گا |
اس دن کے بعد سے اب یہی امکاں لگتا ہے |
وہ تیری فاتحہ پر کیوں کر آئے بارق |
بتا تو سہی آخر تو اس کا کیا لگتا ہے |
معلومات