پیغام خوشیوں کا دیوالی لے کے آئی |
ہرسال کی طرح روشن دیپ کرنے آئی |
فانوس جل اٹھے، قندیلیں بھی جگمگائی |
تاریکیوں کے سایہ گھر سے چھٹانے آئی |
کپڑے نئے پہننا، پکوان پر مزہ سے |
آتش و پٹاخوں کی گونج لو، سنانے آئی |
سکھ شانتی ہو جائیں، زر و دَھن کثیر پائیں |
آشیرواد بانٹتے، من لبھانے آئی |
تہوار دوریوں کو بھی پاٹتے ہی رہتے |
روٹھوں ہوؤں کو سارے جیسے منانے آئی |
پرچار پھیل جائيں جو پیار کا یہاں بس |
گہرائیوں میں اس مقصد کو بسانے آئی |
ہوں نفرتیں کبھی بھولے سے بھی نہ کسی سے |
بدلاؤ کو مزاجوں میں خوب بھرنے آئی |
نا درمیاں میں ناصر بھی کھائیاں رہے کچھ |
تشنہ سی روح میں شیرینی گھلانے آئی |
معلومات