تم نے تو ابتدا میں ہی یار کمال کر دیا |
عشق کی بزم میں مرا رہنا محال کر دیا |
حد سے گزر گیا ہے وہ، اُس کا نصیب قید و بند |
جس نے امیرِ شہر سے کوئی سوال کر دیا |
کتنا عجیب سا ہے یار فلسفۂ ستم ترا |
مجھ پہ کیا حرام جو ، خود پہ حلال کر دیا |
زورِ شباب مجھ میں تھا ، اونچی اڑان تھی مری |
نرم سے ایک ہاتھ نے مجھ کو نڈھال کر دیا |
ہم کو سفر کے شوق نے اچھا صلہ دیا کہ اب |
"چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا" |
۔ |
سایہ تھا سر پہ باپ کا اپنا جہان تھا الگ |
جب میں لگا جہاں کے ہاتھ اس نے نڈھال کر دیا |
- |
معلومات