| وہ کسی ملک کی شہزادی لگتی |
| جہاں پر پرندے چہچہاتے |
| بلبل کو سر کا استاد مانا جاتا |
| شیر ہرن کا شکار نہیں کرتے |
| کمزور طاقت ور سے نہیں ڈرتے |
| وہاں لوگ آپس میں ملے بیٹھتے |
| کرنے لگتے پھر باتیں دلوں کی |
| کبھی کسی پر ذاتی وار نہیں کرتے |
| وہاں کے پہاڑوں کا بھی اپنا رعب ہے |
| درخت جھک کر سلام کرتے |
| عشاق جسے دیکھ کر دم بھرتے |
| جھرنوں سے ٹھنڈا پانی |
| اس کیلئے لایا جاتا |
| انگوروں کا وہ ہار پہنتی |
| ہم نے دیکھا تھا اسے کہیں کشتی پہ |
| پانیوں کے بیچوں بیچ |
| اپنی ہی مستی میں |
| اسے دیکھ کے |
| پہلے تھوڑا گھبرائے تھے |
| ہم تھے اُجڑے دیس کے باسی |
| جہاں پر قتل غارت عام تھی |
| سب شریف حمام میں ننگے تھے |
| فاختہ کو ڈر تھا، کبوتر قیدی تھے |
| شیر جنگل کے بادشاہ تھے |
| جھرنوں کا پانی کڑوا تھا |
| یہاں کے لوگ عشاق نہیں وحشی تھے، |
| جو بس جسم کے پیاسے تھے |
| میرے دیس میں کرپشن کا بازار گرم تھا |
| یہاں واعظ بس صبح و شام تقریر کرتے |
| لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ چغلیاں تھا |
| باپ کو پناہ گاہ چھوڑنا بیٹا اپنا فرض سمجھتا |
| استادوں کے بھی رنگ نرالے تھے |
| صرف چند طالبہ جنہیں پیارے تھے |
| کوئی روتا یا بتاتا اپنی کوئی پریشانی |
| یہاں کے منصف اس کا فائدہ اٹھاتے |
| چوری نا کرنے پر ہاتھ کٹواتے |
| بیٹھا دیتے پھر کسی بیچ سٹرک پہ |
| مجھ سے کئیں عام شہری |
| صبح شام اپنا غصہ فیسبک پر ڈہاتے |
| جہاں ہم اپنے علم کی بنیاد پر |
| غریبوں کو قانون سے ڈراتے |
| کرتے رہتے شکوہ احتجاج سوشل میڈیا پر |
| لیکن کبھی کسی کے انصاف کیلئے |
| بیچ سڑک پر نا آتے |
| یہاں سب کے اپنے اپنے لیڈر تھے |
| یہاں سب کے اپنے اپنے خدا تھے |
| بھلا ہم کیسے کسی ایسی شہزادی |
| کے ہو سکتے تھے، کیسے ہمیں کوئی ایسا مل سکتا تھا |
| جس کے دیس اس سا ہی حسین تھا |
| بھلا ہم کیسے ایسی شہزادی کے ہو سکتے تھے ۔ |
معلومات