یاد میں کھو کے تری ہم کیا سے کیا ہو جاتے ہیں
سوچ کے تجھ کو کبھی صحرا نما ہو جاتے ہیں
دنیا میں ملتا ہے کیا ، کس کو وفاؤں کا صلہ
دیکھتے سب رنگ ہم اس کے فنا ہو جاتے ہیں
خوں گنوا کے بھی جگر کا اشکوں میں اپنا سدا
قید میں الفت کی اک دیکھو سزا ہو جاتے ہیں
ہے کوئی بے سود سی کوشش یہ رشتوں کا نبا
اک ذرا سی بات پر سب ہی خفا ہو جاتے ہیں
ہم تو رکھتے ہیں ہمیشہ سے ہی چاہت کے بھرم
لوگ انساں سے مگر جگ میں خدا ہو جاتے ہیں
روز مجبوریوں کا ہوتا ہے بپا ماتم کوئی
روز ہی شاہد یونہی اپنے جدا ہو جاتے ہیں

0
90