ناداں ہے تری قوم کا وہ صاحبِ تدبیر |
خنداں ہے تمسخر کی زباں جس پہ بھی تقدیر |
کہنے کو ہیں قائد کہ مگر دیکھ ذرا تو |
قائد کو ترے خود کی بھی آتی نہیں تعمیر |
وہ کیسے کسی قوم کو بیدار کرے گا |
جس سے کہ بھری بزم میں ہوتی نہیں تقریر |
بازی گرِ محفل ہے وہ قبضے میں ہے جس کے |
خوش نطقی ، زباں دانی ،قلم، شوخیٔ تحریر |
کم مایگی کا تھوڑا بھی احساس نہیں ہے |
خالی ہے بہاروں سے مری وادیٔ کشمیر |
تصویر مری کیسی بنائی ہے مصور |
بے رنگ ، خزاں دیدہ حنا ہے رخِ تصویر |
دل درد سے خالی ہے جگر خون نہیں ہے |
ہونٹوں پہ گو ہے رقص کناں نعرۂ تکبیر |
دل دولتِ تقوی سے جو محروم رہے گا |
واعظ کے لب و لہجے میں رہتی نہیں تاثیر |
میں ایسا جواں ہوں کے ہوں باطل سے ہراساں |
چلتی ہے زباں گرچہ کہ مانندۂ شمشیر |
گونگی ہے زباں قلب منور بھی نہیں ہے |
محرومِ تماشا ہوں میں اے صاحبِ تنویر |
یہ میرا گماں تھا کہ میں تنہا ہوں مسافر |
جوں جوں میں چلا ملتے گیے راہ میں رہگیر |
جو خواب جنوں بن کے سدا دل میں رہے گا |
ہوتا ہے وہی خواب ہی شرمندۂ تعبیر |
بھارت ہی اگر میری رسائی سے ہو باہر |
تو کیسے کروں عالمِ امکاں کی میں تسخیر |
حالات کی رنجش سے دفاع کیسے کروں گا |
ہاتھوں میں مرے بیڑیاں ہیں پاؤں میں زنجیر |
پھر ٹوٹ کے دل نے یہ کہا مجھ سے اے شاہؔی |
ہوتے ہیں اگر وقت تو کرتے نہیں تاخیر |
دل ساز و جگر سوز و بلند خواب اے شاعر |
با عزم جواں مرد یوں ہوتے نہیں دلگیر |
قائد ہیں وہی قوم کے ملت کے محافظ |
لکھتے ہیں لہو دے کے جو اقوام کی تقدیر |
معلومات