| پہلے تو دل میں تھا ترے لیکن |
| اب تماشہ جہان کا ہوں میں |
| اب مجھے لگ رہا بُرا جیسے |
| بے تحاشا زبان کا ہوں میں |
| عشق ہے اور شقوق بھی دل میں |
| ہائے کیسے گمان کا ہوں میں |
| جیسے ٹوٹا ہوا ہے دل میرا |
| ایسے ٹوٹے مکان کا ہوں میں |
| کیسے پہچان کی طلب رکھوں |
| مٹنے والے نشان کا ہوں میں |
| ایسی تلوار زنگ ہو جس پر |
| بے ضرر سی میان کا ہوں میں |
| دردِ دل ہے میاؔں کے سینے میں |
| تب ہی طالب دھیان کا ہوں میں |
| میاؔں حمزہ |
معلومات