پہلے تو دل میں تھا ترے لیکن
اب تماشہ جہان کا ہوں میں
اب مجھے لگ رہا بُرا جیسے
بے تحاشا زبان کا ہوں میں
عشق ہے اور شقوق بھی دل میں
ہائے کیسے گمان کا ہوں میں
جیسے ٹوٹا ہوا ہے دل میرا
ایسے ٹوٹے مکان کا ہوں میں
کیسے پہچان کی طلب رکھوں
مٹنے والے نشان کا ہوں میں
ایسی تلوار زنگ ہو جس پر
بے ضرر سی میان کا ہوں میں
دردِ دل ہے میاؔں کے سینے میں
تب ہی طالب دھیان کا ہوں میں
میاؔں حمزہ

0
48