جو حُسن ہے ہستی میں کس نور کے جلوے ہیں
یہ دھر میں بکھرے ہیں کچھ امبر چمکے ہیں
ان سب نظاروں کی کیا بات کوئی پوچھے
انوار کے پرتو ہیں جب آنکھ نے دیکھے ہیں
اک محفل یادوں کی جب پیار سے لگتی ہے
لگیں چاند ہیں نورانی اس دل میں جو دمکے ہیں
گر فضل و کرم آقا نادار پہ ہو جائے
کروں عرض میں آ کر جاں ارمان جو دل کے ہیں
اس گُلشنِ طیبہ کا ہر پھول ہے نورانی
جہاں بادل رحمت کے ہر آن میں برسے ہیں
اس در سے مِلیں راہیں فِردوس جو جاتی ہیں
مقصودِ جِناں ہیں وہ اس در کے جو بَردے ہیں
حق راہ دکھاتے ہیں محمود نبی میرے
وہ ارم میں پہنچے ہیں اس راہ جو نکلے ہیں

42