دیپال پور کو ہم شہرِ بے وفا کہتے ہیں
جو کبھی پیار تھا، اب غم کی صدا کہتے ہیں
میں نے جس خواب کو تعبیر عطا کی تھی
اب وہی لوگ بھی اسے قضا کہتے ہیں
زخم دے کر بھی پوچھا نہیں ہے اس نے کچھ
اور سب لوگ اُسے اہلِ حیا کہتے ہیں
دل یہ جلانا یہاں کچھ خاص نہیں سمجھو
لوگ تو شعلوں کو بھی رسمِ بقا کہتے ہیں
راستے میں جو پڑی اب ٹوٹ چلی تھی صدا
آج تک اُس کو وہی نقشِ وفا کہتے ہیں
دیپال پور سے تو تھا رشتہ دل کا
اب اسی شہر کو شہرِ بے وفا کہتے ہیں
حیدرؔ اس شہر کی ہر بات عجیب و غریب
دھوکہ بھی دے تو اُسے بھی وفا کہتے ہیں

0
8