ہو سکی تم سے ملا قات ، بہت تھوڑی ہے |
اور پھر تم سے ہوئی بات ، بہت تھوڑی ہے |
تم کو جی بھر کے ابھی دیکھا کہاں ہے میں نہیں |
اب جو باقی ہے بچی رات بہت تھوڑی ہے |
شمع کی طرح لُٹا دیتے ہیں جاں پروانے |
پھر بھی پروانے کی اوقات بہت تھوڑی ہے |
چاند سا چہرہ جو دیکھا تو یہ احساس ہوا |
ساتھ تاروں کی تو بارات بہت تھوڑی ہے |
جلد اب منزلِ مقصود نظر آئے گی |
رہ گئی گردشِ حالات بہت تھوڑی ہے |
طارق اب تم بھی ذرا جلدی سمیٹو بستر |
پو پھٹا چاہتی ہے، رات بہت تھوڑی ہے |
معلومات